ڈاکٹر شیریں مزاری........
اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا اجلاس 24 ستمبر کو ہو رہا ہے جس کی صدارت امریکی صدر اوباما کریں گے۔ اس اجلاس کا مرکزی موضوع خصوصی طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے آرمز کنٹرول اور تحفیف اسلحہ ہو گا۔ اوباما انتظامیہ پہلے ہی ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو روکنے اور ان میں کمی کے لئے سلامتی کونسل میں قرارداد کا مسودہ پیش کر چکی ہے۔ اوباما انتظامیہ کے پیش کردہ اس مسودے میں بہت سے اہم عناصر ہیں جو بش انتظامیہ کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں ہمیں اس بات پر زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کی خارجہ و سکیورٹی پالیسیاں کہیں زیادہ بش انتظامیہ کی پالیسیوں کا ہی تسلسل ہیں خصوصاً افغانستان اور پاکستان کے ساتھ تعلقات اور ایٹمی پھیلائو کے معاملے میں تو ایسا ہی ہے جہاں تک ایٹمی عدم پھیلائو کے معاملے کا تعلق ہے اپنے بیانات کے برعکس اوباما انتظامیہ بش ہی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس نے جنیوا کی تخفیف اسلحہ کانفرنس میں میزائل میٹریل کنٹرول ٹرینی کے لئے امریکی سرپرستی میں قرارداد کا مسودہ پیش کیا یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اس مسودہ قرارداد میں بعض ایسے بنیادی نکات کو شامل نہیں کیا گیا جن کا مطالبہ چین اور پاکستان سمیت دیگر اہم ممالک نے کیا تھا۔ مثال کے طور پر امریکی مسودہ میں فیسائل میٹریل ذخائر کے تصدیقی سٹرکچر قائم کرنے کی دفعات شامل نہیں کی گئیں اس کے برعکس مسودہ میں تصدیق کے لئے صرف قومی فنی ذرائع کا حوالہ دیا گیا ہے اس صورتحال میں پاکستان کو پہلے ہی اس مشکل راستے کا علم ہے کہ تصدیقی مشقوں کو شامل کئے بغیر جوہری ہتھیار سازی کے مواد کو ذخیرہ کرنے سے متعلق بین الاقوامی معاہدے ناقابل اعتبار ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق پاکستان اور بھارت میں دوطرفہ معاہدے کے باوجود بھارت نے اس وقت تک پاکستان کو دھوکے میں رکھا جب تک کثیر فریقی کیمیکل ویپنز کنونشن نے بھارت کے پاس کیمیائی ہتھیاروں کے بھاری ذخائر کی موجودگی کا انکشاف نہیں کر دیا جن کے بارے میں بھارت نے پاکستان کو بتایا تھا کہ وہ انہیں پہلے ہی تباہ کر چکا ہے۔ امریکی مسودے میں خلا میں ہتھیاروں کی دوڑ روکنے کا بھی کوئی ذکر نہیں جبکہ یہ چین کے ساتھ ایک اہم ایشو کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بیلسٹک میزائل ڈیفنس پروگرام کے ہوتے ہوئے خلاء میں ہتھیاروں کی دوڑ کی روک تھام امریکہ کے لئے کوئی ترجیحی مسئلہ نہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اوباما انتظامیہ تحفظات کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہے لیکن وہ بش انتظامیہ کے پیش نظر فیسائل میٹریل کنٹرول ٹریٹی کے مسودے میں ترمیم کرنے کے لئے تیار نہیں شاید پاکستان کے لئے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس میں موجودہ ذخائر میں کمی کے حوالے سے کوئی تعلق موجود نہیں جس کے بغیر پاکستان مستقل خسارے میں رہے گا۔ ان تمام منفی عناصر کے باوجود پاکستان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ ان ایشوز پر کسی پیشرفت کے بغیر وہ امریکی مسودے کے مطابق فیسائل میٹریل کنٹرول ٹریٹی کو تبدیل کر لے جوشینون مینڈیٹ میں حاصل کئے گئے عالمی اتفاق رائے کے سراسر منافی ہے لہٰذا بلاشبہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں اوباما ایٹمی پھیلائو کے بارے میں امریکی مسودہ قرارداد کو منظور کرائیں گے جو پاکستان جیسے ملکوں کے لئے سراسر نقصان دہ ہو گا کیونکہ اس کی بعض شقیں ایسی ہیں جن کے ذریعے جان بوجھ کر عالمی ایٹمی ایجنسی کا دائرہ کار کم کر کے سلامتی کونسل کا دائرہ بڑھانے کے ذریعے عدم پھیلائو کے ایشوز کو سیاسی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس حقیقت کے برعکس کہ آزاد البرادی عالمی ایٹمی ایجنسی سے رخصت ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ امریکہ نواز ڈی جی ایجنسی کا کنٹرول سنبھال رہے ہیں اس مسودے میں تشویشناک شقیں آرٹیکل I اور آرٹیکل 2 ہیں۔ آرٹیکل I ایک خطرناک شق ہے کیونکہ اس میں عمومی طور پر آئی اے ای اے کے دائرے میں آنے والے ایٹمی معاملات سلامتی کونسل کے سپرد کئے جا رہے ہیں اس طرح انہیں سیاسی بنایا جا رہا ہے اور سلامتی کونسل کو تعزیری ایکشن لینے کا وسیع تر اختیار دیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی شق آئی اے ای اے فنی فوکس اور غیر سیاسی اپروچ کے ذریعے مفاہمتی حل کو روکے گی جس کا مظاہرہ البرادی امریکہ کے شدید دبائو کے باوجود ایران کے معاملے میں کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں اس شق کے ذریعے امریکہ جیسے طاقتور ملکوں کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ حقیقی فنی ایشوز کو سیاسی رنگ دیں اور اس طرح دشمن ممالک کو سزا دی جا سکے۔ آرٹیکل 2 میں ایٹمی عدم پھیلائو معاہدے کے آرٹیکل IV کی بالواسطہ طور پر بڑی بے ڈھنگی تشریح کی گئی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام ممالک مکمل طور پر این پی ٹی کے معاملے میں اپنی ذمے داریاں پوری کریں لیکن ایسی تعمیل کرنے کے معاملے میں این پی ٹی کے فوائد کو مشروط کر دیا گیا ہے درحقیقت آرٹیکل IV میں کسی شرط کا عنصر موجود نہیں جس میں این پی ٹی کے ارکان کو سویلین جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے اور اس معاملے میں برابر کے حقوق دینے کی بات کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر امریکی مسودے میں انہی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے جن کا اظہار ایٹمی عدم پھیلائو کے معاملے میں بش انتظامیہ کرتی رہی ہے اس میں دہشت گردی کے مسئلے کو اس حقیقت کے برعکس ایٹمی دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دہشت گردوں کو اپنے ایجنٹوں پر عملدرآمد کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس کا تمہیدی پیرا نمبر 16 اس لحاظ سے بہت دلچسپ ہے کہ اس میں ایٹمی دہشت گردی کے خطرے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور اس میں دہشت گردی کے مقصد کے لئے ایٹمی مواد اور فنی معاونت کی شق شامل کی گئی ہے۔ پاکستان کو اس معاملے پر فکرمند ہونا چاہئے کیونکہ اس کا استعمال اس کے اور پاکستانی سائنسدانوں خصوصاً ڈاکٹر قدیر کے خلاف ہو گا۔ امریکہ ڈاکٹر قدیر تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کئی کوششیں کر چکا ہے اور یہ نئی قرارداد پاکستان اور ڈاکٹر قدیر کو سزا دینے کا ایک اور ہتھکنڈہ ہے امریکہ کا بار بار یہ کہنا کہ ہماری سرزمین سے امریکہ پر ایٹمی دہشت گردی اور حملے کا خطرہ ہے انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ کوئی بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے بات کرنا پسند نہیں کرے گا۔ یہ کہنا کافی ہو گا کہ ایٹمی ہتھیار یا مواد سے مسلح کوئی دہشت گرد آخر کس طرح سمندر پار کر کے امریکہ تک پہنچے گا کیا وہ اسے اپنے کسی ساتھی کو پارسل کرے گا اور یہ توقع رکھے گا کہ کئی مراحل پر سیکورٹی چیکنگ سے گزرتے ہوئے تابکاری کے اخراج کا کوئی نوٹس نہیں لے گا۔ یا وہ اسے کسی شخص کے ذریعے لے جاتے ہوئے یہ امید رکھے گا کہ کوئی اس کا سراغ نہیں لگا سکے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا امریکہ کے اندر ایٹمی دہشت گردی امریکہ کے اندر ہی سے ہو سکتی ہے جہاں ایٹمی سکیورٹی ایک اہم ایشو ہے امریکہ میں نہ صرف ایٹمی پاور پلانٹس سے جوہری مواد لیک ہونے کے واقعات ہوئے ہیں بلکہ 2007ء میں امریکی فضائیہ عارضی طور پر قابل استعمال ایٹمی ہتھیار گم بھی کر چکی ہے اور ایسا ایک مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سٹرکچر کے باوجود ہوا ہے بدقسمتی سے اوباما انتظامیہ نے اپنے مسودے میں ایٹمی ایشوز پر حقیقی سکیورٹی تشویش کو نظرانداز کر دیا ہے۔ یہ لیکیج اور فیسائل میٹریل کی چوری روکنے کے لئے ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کی ضرورت ہے اس معاملے میں سب سے برا ریکارڈ جاپان روس اور بھارت کا ہے جبکہ امریکہ کئی عشروں سے اسرائیل کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرنے میں ملوث ہے۔
جاپان ان ممالک میں شامل ہے جن کے پاس دنیا میں سب سے ترقی یافتہ سول ایٹمی پروگرام ہیں اس کی ہمسائیگی میں متنازعہ ری پروسیسنگ پلانٹ اور اسکے ایٹمی پلانٹس میں حادثات تشویشناک بات ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تسلسل کے ساتھ ایسی رپورٹس آتی رہی ہیں کہ روس اور یوکرائین سے چرائی گئی یورینیم بلیک مارکیٹ میں فروخت کی جا رہی ہے بھارت میں تابکاری پھیلانے والے مواد کی چوری کی خبریں بھی شائع ہو چکی ہیں اس صورت حال میں اگر اوباما انتظامیہ اپنی ایٹمی سلطنت میں سکیورٹی کے عنصر کو زیرو پر لانا چاہتی ہے تو اسے ایٹمی سیفٹی پر زیادہ اور ایٹمی دہشت گردی پر کم توجہ دینا ہو گی یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ عدم پھیلائو کے بارے میں اوباما اپنی انتخابی مہم کے دوران جس بات کو دہراتے رہے ہیں وہ اتنی جلد ختم ہو گئی ہے اور اب وہ بش کی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کی باتیں کر رہے ہیں اب جبکہ ایٹمی عدم پھیلائو ایسی مخاصمانہ اور امتیازی قراردادکا مسودہ پیش کر دیا گیا ہے اس پر پاکستان کا موقف کیا ہو گا کیا حقانی ہمیشہ کی طرح امریکی ایجنڈا کو آگے بڑھائیں گے کیا دفتر خارجہ سیکرٹری کی عدم موجودگی میں اپنا فرض پورا کرے گا۔ کیا ہمارے حکمران ہمیں ایک اور ڈیل کا شکار بنائیں گے ہمیں اپنی سانسیں روک لینی چاہئیں۔
اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا اجلاس 24 ستمبر کو ہو رہا ہے جس کی صدارت امریکی صدر اوباما کریں گے۔ اس اجلاس کا مرکزی موضوع خصوصی طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے آرمز کنٹرول اور تحفیف اسلحہ ہو گا۔ اوباما انتظامیہ پہلے ہی ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو روکنے اور ان میں کمی کے لئے سلامتی کونسل میں قرارداد کا مسودہ پیش کر چکی ہے۔ اوباما انتظامیہ کے پیش کردہ اس مسودے میں بہت سے اہم عناصر ہیں جو بش انتظامیہ کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں ہمیں اس بات پر زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کی خارجہ و سکیورٹی پالیسیاں کہیں زیادہ بش انتظامیہ کی پالیسیوں کا ہی تسلسل ہیں خصوصاً افغانستان اور پاکستان کے ساتھ تعلقات اور ایٹمی پھیلائو کے معاملے میں تو ایسا ہی ہے جہاں تک ایٹمی عدم پھیلائو کے معاملے کا تعلق ہے اپنے بیانات کے برعکس اوباما انتظامیہ بش ہی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس نے جنیوا کی تخفیف اسلحہ کانفرنس میں میزائل میٹریل کنٹرول ٹرینی کے لئے امریکی سرپرستی میں قرارداد کا مسودہ پیش کیا یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اس مسودہ قرارداد میں بعض ایسے بنیادی نکات کو شامل نہیں کیا گیا جن کا مطالبہ چین اور پاکستان سمیت دیگر اہم ممالک نے کیا تھا۔ مثال کے طور پر امریکی مسودہ میں فیسائل میٹریل ذخائر کے تصدیقی سٹرکچر قائم کرنے کی دفعات شامل نہیں کی گئیں اس کے برعکس مسودہ میں تصدیق کے لئے صرف قومی فنی ذرائع کا حوالہ دیا گیا ہے اس صورتحال میں پاکستان کو پہلے ہی اس مشکل راستے کا علم ہے کہ تصدیقی مشقوں کو شامل کئے بغیر جوہری ہتھیار سازی کے مواد کو ذخیرہ کرنے سے متعلق بین الاقوامی معاہدے ناقابل اعتبار ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق پاکستان اور بھارت میں دوطرفہ معاہدے کے باوجود بھارت نے اس وقت تک پاکستان کو دھوکے میں رکھا جب تک کثیر فریقی کیمیکل ویپنز کنونشن نے بھارت کے پاس کیمیائی ہتھیاروں کے بھاری ذخائر کی موجودگی کا انکشاف نہیں کر دیا جن کے بارے میں بھارت نے پاکستان کو بتایا تھا کہ وہ انہیں پہلے ہی تباہ کر چکا ہے۔ امریکی مسودے میں خلا میں ہتھیاروں کی دوڑ روکنے کا بھی کوئی ذکر نہیں جبکہ یہ چین کے ساتھ ایک اہم ایشو کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بیلسٹک میزائل ڈیفنس پروگرام کے ہوتے ہوئے خلاء میں ہتھیاروں کی دوڑ کی روک تھام امریکہ کے لئے کوئی ترجیحی مسئلہ نہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اوباما انتظامیہ تحفظات کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہے لیکن وہ بش انتظامیہ کے پیش نظر فیسائل میٹریل کنٹرول ٹریٹی کے مسودے میں ترمیم کرنے کے لئے تیار نہیں شاید پاکستان کے لئے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس میں موجودہ ذخائر میں کمی کے حوالے سے کوئی تعلق موجود نہیں جس کے بغیر پاکستان مستقل خسارے میں رہے گا۔ ان تمام منفی عناصر کے باوجود پاکستان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ ان ایشوز پر کسی پیشرفت کے بغیر وہ امریکی مسودے کے مطابق فیسائل میٹریل کنٹرول ٹریٹی کو تبدیل کر لے جوشینون مینڈیٹ میں حاصل کئے گئے عالمی اتفاق رائے کے سراسر منافی ہے لہٰذا بلاشبہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں اوباما ایٹمی پھیلائو کے بارے میں امریکی مسودہ قرارداد کو منظور کرائیں گے جو پاکستان جیسے ملکوں کے لئے سراسر نقصان دہ ہو گا کیونکہ اس کی بعض شقیں ایسی ہیں جن کے ذریعے جان بوجھ کر عالمی ایٹمی ایجنسی کا دائرہ کار کم کر کے سلامتی کونسل کا دائرہ بڑھانے کے ذریعے عدم پھیلائو کے ایشوز کو سیاسی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس حقیقت کے برعکس کہ آزاد البرادی عالمی ایٹمی ایجنسی سے رخصت ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ امریکہ نواز ڈی جی ایجنسی کا کنٹرول سنبھال رہے ہیں اس مسودے میں تشویشناک شقیں آرٹیکل I اور آرٹیکل 2 ہیں۔ آرٹیکل I ایک خطرناک شق ہے کیونکہ اس میں عمومی طور پر آئی اے ای اے کے دائرے میں آنے والے ایٹمی معاملات سلامتی کونسل کے سپرد کئے جا رہے ہیں اس طرح انہیں سیاسی بنایا جا رہا ہے اور سلامتی کونسل کو تعزیری ایکشن لینے کا وسیع تر اختیار دیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی شق آئی اے ای اے فنی فوکس اور غیر سیاسی اپروچ کے ذریعے مفاہمتی حل کو روکے گی جس کا مظاہرہ البرادی امریکہ کے شدید دبائو کے باوجود ایران کے معاملے میں کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں اس شق کے ذریعے امریکہ جیسے طاقتور ملکوں کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ حقیقی فنی ایشوز کو سیاسی رنگ دیں اور اس طرح دشمن ممالک کو سزا دی جا سکے۔ آرٹیکل 2 میں ایٹمی عدم پھیلائو معاہدے کے آرٹیکل IV کی بالواسطہ طور پر بڑی بے ڈھنگی تشریح کی گئی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام ممالک مکمل طور پر این پی ٹی کے معاملے میں اپنی ذمے داریاں پوری کریں لیکن ایسی تعمیل کرنے کے معاملے میں این پی ٹی کے فوائد کو مشروط کر دیا گیا ہے درحقیقت آرٹیکل IV میں کسی شرط کا عنصر موجود نہیں جس میں این پی ٹی کے ارکان کو سویلین جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے اور اس معاملے میں برابر کے حقوق دینے کی بات کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر امریکی مسودے میں انہی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے جن کا اظہار ایٹمی عدم پھیلائو کے معاملے میں بش انتظامیہ کرتی رہی ہے اس میں دہشت گردی کے مسئلے کو اس حقیقت کے برعکس ایٹمی دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دہشت گردوں کو اپنے ایجنٹوں پر عملدرآمد کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس کا تمہیدی پیرا نمبر 16 اس لحاظ سے بہت دلچسپ ہے کہ اس میں ایٹمی دہشت گردی کے خطرے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور اس میں دہشت گردی کے مقصد کے لئے ایٹمی مواد اور فنی معاونت کی شق شامل کی گئی ہے۔ پاکستان کو اس معاملے پر فکرمند ہونا چاہئے کیونکہ اس کا استعمال اس کے اور پاکستانی سائنسدانوں خصوصاً ڈاکٹر قدیر کے خلاف ہو گا۔ امریکہ ڈاکٹر قدیر تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کئی کوششیں کر چکا ہے اور یہ نئی قرارداد پاکستان اور ڈاکٹر قدیر کو سزا دینے کا ایک اور ہتھکنڈہ ہے امریکہ کا بار بار یہ کہنا کہ ہماری سرزمین سے امریکہ پر ایٹمی دہشت گردی اور حملے کا خطرہ ہے انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ کوئی بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے بات کرنا پسند نہیں کرے گا۔ یہ کہنا کافی ہو گا کہ ایٹمی ہتھیار یا مواد سے مسلح کوئی دہشت گرد آخر کس طرح سمندر پار کر کے امریکہ تک پہنچے گا کیا وہ اسے اپنے کسی ساتھی کو پارسل کرے گا اور یہ توقع رکھے گا کہ کئی مراحل پر سیکورٹی چیکنگ سے گزرتے ہوئے تابکاری کے اخراج کا کوئی نوٹس نہیں لے گا۔ یا وہ اسے کسی شخص کے ذریعے لے جاتے ہوئے یہ امید رکھے گا کہ کوئی اس کا سراغ نہیں لگا سکے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا امریکہ کے اندر ایٹمی دہشت گردی امریکہ کے اندر ہی سے ہو سکتی ہے جہاں ایٹمی سکیورٹی ایک اہم ایشو ہے امریکہ میں نہ صرف ایٹمی پاور پلانٹس سے جوہری مواد لیک ہونے کے واقعات ہوئے ہیں بلکہ 2007ء میں امریکی فضائیہ عارضی طور پر قابل استعمال ایٹمی ہتھیار گم بھی کر چکی ہے اور ایسا ایک مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سٹرکچر کے باوجود ہوا ہے بدقسمتی سے اوباما انتظامیہ نے اپنے مسودے میں ایٹمی ایشوز پر حقیقی سکیورٹی تشویش کو نظرانداز کر دیا ہے۔ یہ لیکیج اور فیسائل میٹریل کی چوری روکنے کے لئے ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کی ضرورت ہے اس معاملے میں سب سے برا ریکارڈ جاپان روس اور بھارت کا ہے جبکہ امریکہ کئی عشروں سے اسرائیل کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرنے میں ملوث ہے۔
جاپان ان ممالک میں شامل ہے جن کے پاس دنیا میں سب سے ترقی یافتہ سول ایٹمی پروگرام ہیں اس کی ہمسائیگی میں متنازعہ ری پروسیسنگ پلانٹ اور اسکے ایٹمی پلانٹس میں حادثات تشویشناک بات ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تسلسل کے ساتھ ایسی رپورٹس آتی رہی ہیں کہ روس اور یوکرائین سے چرائی گئی یورینیم بلیک مارکیٹ میں فروخت کی جا رہی ہے بھارت میں تابکاری پھیلانے والے مواد کی چوری کی خبریں بھی شائع ہو چکی ہیں اس صورت حال میں اگر اوباما انتظامیہ اپنی ایٹمی سلطنت میں سکیورٹی کے عنصر کو زیرو پر لانا چاہتی ہے تو اسے ایٹمی سیفٹی پر زیادہ اور ایٹمی دہشت گردی پر کم توجہ دینا ہو گی یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ عدم پھیلائو کے بارے میں اوباما اپنی انتخابی مہم کے دوران جس بات کو دہراتے رہے ہیں وہ اتنی جلد ختم ہو گئی ہے اور اب وہ بش کی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کی باتیں کر رہے ہیں اب جبکہ ایٹمی عدم پھیلائو ایسی مخاصمانہ اور امتیازی قراردادکا مسودہ پیش کر دیا گیا ہے اس پر پاکستان کا موقف کیا ہو گا کیا حقانی ہمیشہ کی طرح امریکی ایجنڈا کو آگے بڑھائیں گے کیا دفتر خارجہ سیکرٹری کی عدم موجودگی میں اپنا فرض پورا کرے گا۔ کیا ہمارے حکمران ہمیں ایک اور ڈیل کا شکار بنائیں گے ہمیں اپنی سانسیں روک لینی چاہئیں۔