محمد فاروق ناطق
Renaissance یعنی تحریک احیائے علوم کا زمانہ عروج سترھویں تا انیسویں صدی عیسوی ہے۔ اس دور میں مذہب بیزار فلسفیوں‘ دانشوروں اور فلسفی سائنسدانوں نے بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کیں جن کے ذریعے اپنے خیالات کو عام کیا۔ اسی دور میں یورپ نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی جبکہ باقی دنیا خصوصاً اسلامی دنیا اپنے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کی آسان کوشی اور علماء کی غفلت کے سبب علمی اور سائنسی طور پر پسماندہ ہو چکی تھی۔ یورپ میں مذہب بیزاری خدا کا انکار اور انسان کو بندر کی اولاد سمجھنے تک جا پہنچی۔ اب یورپ میں زندگی کی معراج یہ ٹھہری کہ ’’انسان اپنی دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے ساری جدوجہد کرے تمام انسان بھی عام حیوانوں کی طرح حیوان ہی ہیں لہٰذا اس دنیا میں بقا محض طاقتور کو نصیب ہو گی‘‘ (چارلس ڈارون اور ہربرٹ سپنسر اس فکر کے علمبردار تھے( اس فلسفے کے عام ہو جانے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہتھیار ہاتھ آ جانے کے بعد یورپی اقوام کمزور اقوام پر ٹوٹ پڑیں مفتوحہ ممالک پر اپنے قبضہ کو مستحکم کرنے کیلئے یورپی اقوام نے وہاں اپنی جدید سیکولر اور لبرل فکر کی ترویج کیلئے کالج اور یونیورسٹیاں تعمیر کیں مفتوحہ اقوام کے تعلیمی ادارے‘ انکی زبانوں میں تعلیم اور عدالتوں کا نظام موقوف کیا اور معاشرت اور معیشت میں اپنی تہذیب اور اپنے تمدن کو رائج کیا جسے مفتوح اور مرعوب وشکست خوردہ لوگوں نے قبول کیا۔ فاتح اقوام نے رزق کے ذرائع اپنے قائم کردہ جدید سیکولر تعلیمی اداروں کی اسناد کیساتھ منسلک کر دیئے۔ مفتوحہ اقوام کے نوجوان یورپ میں بھی تعلیم حاصل کرنے لگے (طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یورپی اقوام نے اپنے مفتوحہ ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کا اہتمام نہیں کیا بلکہ ان تمام ممالک کو آزادی حاصل ہونے کے بعد خود اس کیلئے جدوجہد کرنی پڑی) اس طرح یورپ کی خدا اور مذہب سے بغاوت پر مبنی فکر‘ ادب‘ عمرانیات‘ فلسفہ‘ آرٹ‘ انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کی تعلیم کے ذریعے تمام دنیا میں پھیل گئی۔ البتہ لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد اب تک دین اسلام سے وابستہ ہے اور یورپ کی اس فکر کیخلاف ہے۔ مسلمانوں کے ممالک میں اس مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم نے ہر طرف انتشار اور فساد پیدا کر دیا ہے۔ افراد‘ طبقات اور اقوام باہم دست وگریباں ہیں‘ سیکولر نظام تعلیم کے نتیجے میں خدا‘ رسولؐ اور احتساب بعدالموت پر اعتقاد کے کمزور پڑنے سے مادہ پرستی‘ لذت کوشی‘ حرص‘ ظلم‘ عریانی وفحاشی‘ کاروباری ذہنیت‘ دھوکا دہی‘ قتل وغارت گری اور بدامنی ہر طرف پھیل چکی ہے۔
عیسائیت کے برعکس اسلام محض عقیدہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو مذہب کی بجائے ایک دین بمعنی مکمل نظام زندگی ہے جس کے اجزاء قرآن وسنت میں پھیلے ہوئے ہیں یہ نظام لگ بھگ بارہ سو برس دنیا کے ایک بڑے حصے پر غالب‘ حاکم اور مقتدر رہا۔ بادشاہ‘ حکمران اگرچہ مطلق العنان اور سرکش بھی رہے مگر مسلمان معاشروں میں عدالتیں اسکے مطابق فیصلے کرتی رہیں بازار میں (غیر سودی) تجارت اسکے قوانین کیمطابق ہوتی تھی‘ تعلیمی درسگاہوں میں اسی کی تعلیم دی جاتی تھی‘ معاشرت کا پورا نظام اسی کی ہدایات کیمطابق تشکیل شدہ تھا اور حکمران ان امور کو اسلام کا جزوِ لاینفک سمجھتے تھے۔ دین اسلام کی اصل تعلیمات گم ہوئی ہیں نہ مسلمان علماء نے کبھی پوپ کی طرح کسی فرد کو دینی معاملات میں (خدا اور رسولؐ کی بجائے) کلی اختیارات کا حامل بنایا یا سمجھا اور نہ ہی مسلم علماء نے ترکِ دنیا کیلئے کبھی ایسا پرتشدد رویہ اختیار کیا جس سے دین اسلام اور علماء اسلام کیخلاف کوئی ہمہ گیر بغاوت پیدا ہوتی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق علوم میں کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن کیخلاف ہو۔ عقل سلیم (جس کے یہ سیکولر حضرات بہت قائل ہیں) کا تقاضہ ہے کہ جو شخص خدا کو کائنات کی اجتماعی ہیئت کا آقا مانتا ہو (ظاہر ہے مسلمان کہلانے کیلئے کلمہ شہادت پڑھنے والا ایک سیکولر شخص اتنا تو تسلیم کرتا ہی ہے) اسے اسی خدا کے احکام کو انسانی زندگی کی اجتماعی ہیئت میں بھی قابل اتباع ماننا چاہئے کیونکہ انسان خود بھی تو اس کائنات کی اجتماعی ہیئت کا حصہ ہے۔ یہ کوئی معقول بات نہیں کہ ایک شخص اسلام سے تو نہ پوچھے کہ تیرے پاس اجتماعی زندگی کے مسائل کا حل ہے یا نہیں لیکن مغرب کی تقلید میں یا مرعوبیت کے سبب‘ اسلام پسندی کی تہمت سے بچنے کیلئے یا دین پسند ہونے کی صورت میں انتہا پسند کہلائے جانے کے خوف سے پورے کے پورے دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کر دے۔
اسلامی ممالک میں خدا‘ حیات بعدالموت اور دین اسلام کی دنیاوی امور سے متعلق تعلیمات کے بارے میں آج جو بے اطمینانی پائی جاتی ہے اس کا سرچشمہ یہی یورپ کی خدا اور اسکے آخری رسول محمدؐ سے برگشتہ فکر ہے جس کی ذرا سخت قسم لبرلزم ہے اور کچھ نرم قسم سیکولرزم کہلاتی ہے۔ پاکستان میں سیکولرزم کا نام لئے بغیر بھی بہت سے لوگ ذرائع ابلاغ کو اسکی وکالت کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سیکولر لوگ 11 اگست 1947ء کو کی جانیوالی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی محض ایک تقریر کو بنیاد بنا کر اور اسکی غلط اور سیاق وسباق سے ہٹی ہوئی من مانی تشریح کر کے ان کو ایک آزاد منش (liberal)‘ غیر دینی (Secular) اور محض ایک قومی رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں تاکہ عوام الناس کو زندگی کے ہر گوشے (خصوصاً حکومت‘ سیاست‘ معاشرت اور معیشت) سے متعلق موجود اسلامی تعلیمات (جنہیں من و عن قبول کرنے میں ان کا اپنا نفس مانع ہے) اور حق پرست علمائِ اسلام سے برگشتہ کر سکیں اور پاکستان کو ایک جدید اسلامی فلاحی مملکت بننے سے روک سکیں۔ حالانکہ قائد اعظم تو پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے ایسا شخص کس طرح سیکولر ہو سکتا ہے؟ دراصل لبرلزم اور سیکولرزم بھی کوئی بنیادی عقائد نہیں ہیں بلکہ محض عیسائی راہبوں کے مذہبی تشدد کیخلاف ردعمل کا نام ہیں جو دنیا کے اباحیت پسند نفس پرستوں کو بہت بھاتے ہیں۔ وہ جدید تعلیم یافتہ مخلص مسلمان جو کچھ مذہبی افراد کی تنگ نظری یا کوتاہ نگاہی کے شاکی ہیں انہیں سیکولرزم یا لبرلزم کا شکار ہو کر خدا کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنے کی بجائے اسلام کی تعلیمات کا انکے اصل مأخذ قرآن وحدیث سے مطالعہ کر کے اور اسلامی تعلیمات کیساتھ ساتھ جدید علوم سے بہرہ ور علمائِ حق کیساتھ بیٹھ کر اجتماعی زندگی کے ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہئے جن کا حل انکے خیال میں کچھ تنگ نظر اور کوتاہ فکر مذہبی لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ آج کے دگرگوں حالات میں بقا‘ نجات‘ آزادی‘ عزت اور سربلندی کا ایک ہی راستہ ہے کہ اہل اسلام خود قرآن وسنت کے شفاف چشمے کی طرف رجوع کریں اور لبرلزم اور سیکولرزم کیخلاف اسلام کے دفاع کی جنگ ہر محاذ پر لڑیں اور پھر دنیا کے عام انسانوں کو اپنی قولی اور عملی شہادت کے ذریعے بتائیں کہ اسلام واقعی خدا کا دیا ہوا حیات بخش نظام زندگی ہے جس کے مقابلے میں لبرلزم اور سیکولرزم دنیا کے انسانوں کو پیار‘ سکون‘ امن‘ خوشحالی‘ قناعت‘ ہمدردی‘ اطمینان قلب‘ خدا سے تعلق اور روحانی لگائو عطا کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
Renaissance یعنی تحریک احیائے علوم کا زمانہ عروج سترھویں تا انیسویں صدی عیسوی ہے۔ اس دور میں مذہب بیزار فلسفیوں‘ دانشوروں اور فلسفی سائنسدانوں نے بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کیں جن کے ذریعے اپنے خیالات کو عام کیا۔ اسی دور میں یورپ نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی جبکہ باقی دنیا خصوصاً اسلامی دنیا اپنے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کی آسان کوشی اور علماء کی غفلت کے سبب علمی اور سائنسی طور پر پسماندہ ہو چکی تھی۔ یورپ میں مذہب بیزاری خدا کا انکار اور انسان کو بندر کی اولاد سمجھنے تک جا پہنچی۔ اب یورپ میں زندگی کی معراج یہ ٹھہری کہ ’’انسان اپنی دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے ساری جدوجہد کرے تمام انسان بھی عام حیوانوں کی طرح حیوان ہی ہیں لہٰذا اس دنیا میں بقا محض طاقتور کو نصیب ہو گی‘‘ (چارلس ڈارون اور ہربرٹ سپنسر اس فکر کے علمبردار تھے( اس فلسفے کے عام ہو جانے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہتھیار ہاتھ آ جانے کے بعد یورپی اقوام کمزور اقوام پر ٹوٹ پڑیں مفتوحہ ممالک پر اپنے قبضہ کو مستحکم کرنے کیلئے یورپی اقوام نے وہاں اپنی جدید سیکولر اور لبرل فکر کی ترویج کیلئے کالج اور یونیورسٹیاں تعمیر کیں مفتوحہ اقوام کے تعلیمی ادارے‘ انکی زبانوں میں تعلیم اور عدالتوں کا نظام موقوف کیا اور معاشرت اور معیشت میں اپنی تہذیب اور اپنے تمدن کو رائج کیا جسے مفتوح اور مرعوب وشکست خوردہ لوگوں نے قبول کیا۔ فاتح اقوام نے رزق کے ذرائع اپنے قائم کردہ جدید سیکولر تعلیمی اداروں کی اسناد کیساتھ منسلک کر دیئے۔ مفتوحہ اقوام کے نوجوان یورپ میں بھی تعلیم حاصل کرنے لگے (طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یورپی اقوام نے اپنے مفتوحہ ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کا اہتمام نہیں کیا بلکہ ان تمام ممالک کو آزادی حاصل ہونے کے بعد خود اس کیلئے جدوجہد کرنی پڑی) اس طرح یورپ کی خدا اور مذہب سے بغاوت پر مبنی فکر‘ ادب‘ عمرانیات‘ فلسفہ‘ آرٹ‘ انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کی تعلیم کے ذریعے تمام دنیا میں پھیل گئی۔ البتہ لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد اب تک دین اسلام سے وابستہ ہے اور یورپ کی اس فکر کیخلاف ہے۔ مسلمانوں کے ممالک میں اس مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم نے ہر طرف انتشار اور فساد پیدا کر دیا ہے۔ افراد‘ طبقات اور اقوام باہم دست وگریباں ہیں‘ سیکولر نظام تعلیم کے نتیجے میں خدا‘ رسولؐ اور احتساب بعدالموت پر اعتقاد کے کمزور پڑنے سے مادہ پرستی‘ لذت کوشی‘ حرص‘ ظلم‘ عریانی وفحاشی‘ کاروباری ذہنیت‘ دھوکا دہی‘ قتل وغارت گری اور بدامنی ہر طرف پھیل چکی ہے۔
عیسائیت کے برعکس اسلام محض عقیدہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو مذہب کی بجائے ایک دین بمعنی مکمل نظام زندگی ہے جس کے اجزاء قرآن وسنت میں پھیلے ہوئے ہیں یہ نظام لگ بھگ بارہ سو برس دنیا کے ایک بڑے حصے پر غالب‘ حاکم اور مقتدر رہا۔ بادشاہ‘ حکمران اگرچہ مطلق العنان اور سرکش بھی رہے مگر مسلمان معاشروں میں عدالتیں اسکے مطابق فیصلے کرتی رہیں بازار میں (غیر سودی) تجارت اسکے قوانین کیمطابق ہوتی تھی‘ تعلیمی درسگاہوں میں اسی کی تعلیم دی جاتی تھی‘ معاشرت کا پورا نظام اسی کی ہدایات کیمطابق تشکیل شدہ تھا اور حکمران ان امور کو اسلام کا جزوِ لاینفک سمجھتے تھے۔ دین اسلام کی اصل تعلیمات گم ہوئی ہیں نہ مسلمان علماء نے کبھی پوپ کی طرح کسی فرد کو دینی معاملات میں (خدا اور رسولؐ کی بجائے) کلی اختیارات کا حامل بنایا یا سمجھا اور نہ ہی مسلم علماء نے ترکِ دنیا کیلئے کبھی ایسا پرتشدد رویہ اختیار کیا جس سے دین اسلام اور علماء اسلام کیخلاف کوئی ہمہ گیر بغاوت پیدا ہوتی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق علوم میں کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن کیخلاف ہو۔ عقل سلیم (جس کے یہ سیکولر حضرات بہت قائل ہیں) کا تقاضہ ہے کہ جو شخص خدا کو کائنات کی اجتماعی ہیئت کا آقا مانتا ہو (ظاہر ہے مسلمان کہلانے کیلئے کلمہ شہادت پڑھنے والا ایک سیکولر شخص اتنا تو تسلیم کرتا ہی ہے) اسے اسی خدا کے احکام کو انسانی زندگی کی اجتماعی ہیئت میں بھی قابل اتباع ماننا چاہئے کیونکہ انسان خود بھی تو اس کائنات کی اجتماعی ہیئت کا حصہ ہے۔ یہ کوئی معقول بات نہیں کہ ایک شخص اسلام سے تو نہ پوچھے کہ تیرے پاس اجتماعی زندگی کے مسائل کا حل ہے یا نہیں لیکن مغرب کی تقلید میں یا مرعوبیت کے سبب‘ اسلام پسندی کی تہمت سے بچنے کیلئے یا دین پسند ہونے کی صورت میں انتہا پسند کہلائے جانے کے خوف سے پورے کے پورے دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کر دے۔
اسلامی ممالک میں خدا‘ حیات بعدالموت اور دین اسلام کی دنیاوی امور سے متعلق تعلیمات کے بارے میں آج جو بے اطمینانی پائی جاتی ہے اس کا سرچشمہ یہی یورپ کی خدا اور اسکے آخری رسول محمدؐ سے برگشتہ فکر ہے جس کی ذرا سخت قسم لبرلزم ہے اور کچھ نرم قسم سیکولرزم کہلاتی ہے۔ پاکستان میں سیکولرزم کا نام لئے بغیر بھی بہت سے لوگ ذرائع ابلاغ کو اسکی وکالت کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سیکولر لوگ 11 اگست 1947ء کو کی جانیوالی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی محض ایک تقریر کو بنیاد بنا کر اور اسکی غلط اور سیاق وسباق سے ہٹی ہوئی من مانی تشریح کر کے ان کو ایک آزاد منش (liberal)‘ غیر دینی (Secular) اور محض ایک قومی رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں تاکہ عوام الناس کو زندگی کے ہر گوشے (خصوصاً حکومت‘ سیاست‘ معاشرت اور معیشت) سے متعلق موجود اسلامی تعلیمات (جنہیں من و عن قبول کرنے میں ان کا اپنا نفس مانع ہے) اور حق پرست علمائِ اسلام سے برگشتہ کر سکیں اور پاکستان کو ایک جدید اسلامی فلاحی مملکت بننے سے روک سکیں۔ حالانکہ قائد اعظم تو پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے ایسا شخص کس طرح سیکولر ہو سکتا ہے؟ دراصل لبرلزم اور سیکولرزم بھی کوئی بنیادی عقائد نہیں ہیں بلکہ محض عیسائی راہبوں کے مذہبی تشدد کیخلاف ردعمل کا نام ہیں جو دنیا کے اباحیت پسند نفس پرستوں کو بہت بھاتے ہیں۔ وہ جدید تعلیم یافتہ مخلص مسلمان جو کچھ مذہبی افراد کی تنگ نظری یا کوتاہ نگاہی کے شاکی ہیں انہیں سیکولرزم یا لبرلزم کا شکار ہو کر خدا کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنے کی بجائے اسلام کی تعلیمات کا انکے اصل مأخذ قرآن وحدیث سے مطالعہ کر کے اور اسلامی تعلیمات کیساتھ ساتھ جدید علوم سے بہرہ ور علمائِ حق کیساتھ بیٹھ کر اجتماعی زندگی کے ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہئے جن کا حل انکے خیال میں کچھ تنگ نظر اور کوتاہ فکر مذہبی لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ آج کے دگرگوں حالات میں بقا‘ نجات‘ آزادی‘ عزت اور سربلندی کا ایک ہی راستہ ہے کہ اہل اسلام خود قرآن وسنت کے شفاف چشمے کی طرف رجوع کریں اور لبرلزم اور سیکولرزم کیخلاف اسلام کے دفاع کی جنگ ہر محاذ پر لڑیں اور پھر دنیا کے عام انسانوں کو اپنی قولی اور عملی شہادت کے ذریعے بتائیں کہ اسلام واقعی خدا کا دیا ہوا حیات بخش نظام زندگی ہے جس کے مقابلے میں لبرلزم اور سیکولرزم دنیا کے انسانوں کو پیار‘ سکون‘ امن‘ خوشحالی‘ قناعت‘ ہمدردی‘ اطمینان قلب‘ خدا سے تعلق اور روحانی لگائو عطا کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔