تڑپتاہے دل

نذیر احمد غازی(سابق جج ہائیکورٹ)
سیلاب کی بلائے ناگہانی نے ہمارے ملک و قوم کو ایک نئے مسائلستان کی دلدل میں دھکیل دیا ہے، اس مصیبت سے نجات کیلئے جتنی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں، اسی قدر و بال آسمانی اپنے بے درد پنجے ہمارے مزید رقبے پر گاڑ دیتی ہے۔ بارش رکنے کا نام نہیں لیتی، بلائے آسمانی زمین پر یوں قبضہ جمائے بیٹھی ہے جیسے یہ قبضہ نہ ختم ہونے والا ہو، ہزاروں لوگ لقمہ سیلاب بن گئے، مویشی، فصلیں سب ہی تباہ ہو گئے ہیں۔ لاکھوں بے گھر افراد نئی زندگی کے آغاز کا انتظار کر رہے ہیں، جن لوگوں کی جیتی دنیا اندھیر ہوئی ان کیلئے اپنی ذات کے مسائل ملکی مسائل سے کہیں زیادہ اہم ہو گئے ہیں اور ان کے نزدیک من کی بھوک اور تن کا کپڑا ہی سب سے زیادہ اور سب سے بڑی ترجیح زندگی ہے۔
دوسری جانب زرعی پیداواری امور کو جو شدید دھچکا لگا ہے اسکی بنیاد پر ہماری معیشت بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ اسباب رزق میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ انسانی سعی و کوشش کے بغیر فطرت بھی اپنا فیصلہ صادر نہیں کرتی، مصائب و مسائل کی اس ہیبت ناک اور ہولناک گھڑی میں خیر وشر کا معرکہ اور تیز تر ہو گیا ہے۔ انسانی زخموں پر مرہم رکھنے والے اور نمک چھڑکنے والے اپنے اپنے تیر و تفنگ لیکر میدان میں اتر آتے ہیں۔ انسانی ہمدردی سے بھرپور عوام الناس اپنی ہمت سے بڑھ کر سیلاب زدگان کی مدد پر کمربستہ ہیں، وہ جگہ جگہ کیمپ لگائے اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کیلئے امدادی سامان اکٹھا کر رہے ہیں اور بڑے بڑے شہروں سے یہ امدادی سامان دوردراز کے علاقوں تک پہنچانے کیلئے اپنے وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب اشرافیہ اپنے پائوں میں انجانے چھپے ہوئے کانٹے تلاش کر رہی ہے‘ انکی ترجیحات میں بہت سے شکم پری کے مسائل شامل ہیں۔ انکے ذہن پر سیلاب طمع اور دل میں خواہشات کا طوفان برپا ہے‘ اس لیے انکی فکر مندی اور لطف اندوزی کے معیار اور میدان عوام سے بالکل ہی مختلف ہیں، وہ بھی سیلابی مسائل پر بات کرتے ہیں لیکن درحقیقت اپنے معاشی وسائل بڑھانے کے نئے زاویے تلاش کرتے ہیں، نئے آنیوالے سیاسی ماحول میں اپنا ٹھکانہ بنانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ یہ بے چارے خواہش اقتدار کے مارے اپنے ساتھ ہر طرح کے بے جا اور بے تال قسم کے اشرافیہ گویوں کا ہجوم رکھتے ہیں۔ وہ بے چارے گویے بھی نئے سرتال بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
اخبارات میں نئی طرز کے بیانات اور مایوس کن تبصرے سامنے آتے ہیں، بغیر کسی سبب کے جنگ کے نقارے بجتے ہیں، اسمبلیوں میں انجانے خوف کے بھوت لتاڑنے کیلئے بارودخیز تقریروں کا متفقہ مظاہرہ ہوتا ہے‘ اپنے وزیراعظم صاحب پر کئی روایت پر ست اہل قلم تیرتنقید اس طرح سے پھینکتے ہیں کہ گویا یہ خیراتی وزیراعظم ہے، کچھ بزعم خویش اہل دانش افواج پاکستان پر اس طرح سے تبصرہ کرتے ہیں کہ گویا یہ فوج انکی خاندانی وراثتی جاگیر کا حصہ ہے، جب دل چاہے فوج پر اس طرز سے کلام کیا جائے کہ لوگ اسے صف مجرماں میں سے جاننے لگیں اور پھر نفرتوں کے الائو بھڑکیں۔
لیکن قارئین کرام یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ اپنے تندور شکم کیلئے ایندھن اکٹھا کرنے کیلئے ہے، قوم، عوام اور ملک ان عاقبت نا اندیشوں کیلئے چوگان کی گیند ہے، جب چاہا کھیلا اور جب چاہا اسے سنبھال کر رکھ دیا۔
ورنہ عوام اور قوم کے درد کی کون کون سی بات ان لوگوں سے مخفی ہے، افسوس یہاں کے بہت سے مسیحا نشتر سے پھوڑے کا علاج نہیں کرتے، بلکہ ناسور بڑھانے کا کھیل کھیلتے ہیں۔ ان کی بلا جانے کہ سوات سے لے کر دادو تک کتنی چٹانیں مسمار ہوئیں، کتنے ہی گھروں کو اب نئی دنیا نصیب بھی ہو گی یا نہیں، یہ تو روزانہ اخباری چوکھٹے میں بنام سیلاب اپنی تصویر و بیان دیکھنے کے عادی ہیں، پھر اس سے بھی چشم سیری میسر نہ آئے تو بری پڑوسنوں کی طرح جوتی مار قسم کے بیان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ان میں سے کوئی سیاسی ادا کار ہے اور کوئی سیاسی ہدایتکار ہے۔ کبھی کوئی درد مارا دانش وران کو یاد دلا دے کہ بھائی دیکھو کہ بلوچستان میں کیا ہورہا ہے اور ذرا خون نہاتے کراچی کی خبر بھی رکھو تو یہ فوراً کپڑے جھاڑ کر اور ہاتھ دھو کر وہاں چلے جاتے ہیں اور وہاں جاکر ایسی فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہیںکہ مصری فراعنہ بھی اس چھنچھور کردار پر زہر لب مسکرا دیتے ہیں۔
خیر یہ تو ایک علیحدہ موضوع ہے کہ یہ لوگ کیا سوچتے ہیں اور کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ شاہ روم کو احساس ہوا کہ ملک کے مالیاتی معاملات کا سنگھا سن ڈول رہا ہے۔ اس نے مشیر مالیات سے راہ نجات پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ بندہ پرور ہمارے اصطبل کے گھوڑوں کے اخراجات پر آدھا بجٹ خرچ ہو جاتا ہے، اس لیے گھوڑوں کی تعداد کم کر دی جائے، قریب بیٹھے ہوئے ایک شریف النفس جہاں دیدہ بولے کہ عالیجاہ مشیر محترم نے آدھا بجٹ بتایا کہ گھوڑوں پر خرچ ہوتا ہے جبکہ باقی آدھا بجٹ کابینہ کے وزراء پر خرچ ہوتا ہے اس لیے گھوڑوں کیساتھ ساتھ کابینہ سے بھی سست رو اور کوتاہ عمل وزراء کو نکال دیا جائے، شاہ روم مسکرایا اور کہا کہ یہ عجیب اتفاق ہے کہ گھوڑوں اور وزیروں میں بجٹ کی تقسیم پر اتفاق ہے، دانا وزیر نے شاہ روم کی تائید میں ایک جملہ کہا کہ ظل سبحانی گھوڑے بھی آپکے ہیں اور لشکر وزیراں بھی آپ ہی کا ہے، اس لیے نہ گھوڑے کم ہوں گے اور نہ ہی گھڑ سوار کم ہوں گے۔
قارئین! بے حسی کے ماحول میں درد کی لہریں اگر بالکل ہی ختم ہو جائیں تو قوم پر موت وارد ہو جاتی ہے لیکن مقام شکر ہے کہ ابھی ہماری قوم میں کچھ ایسے اہل درد زندہ ہیں جنہیں اپنی قبر بھی یاد آتی ہے وہ کھلی آنکھ سے اپنی آخری مرتبہ آنکھیں بند ہونے کا محسوساتی شعور رکھتے ہیں، وہ توبہ کے دروازے سے گزر کر اپنی حیات تازہ کا سامان کرتے ہیں اور یقیناً اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں کو محبوب رکھتے ہیں۔
یہ بحریہ ٹائون کے ملک ریاض کتنے بڑے انسان ہیں کہ جنہوں نے دنیا کی دولت کو اپنے ہم وطنوں کی دولت سمجھا ہے۔ اپنی قوم کی بدولت ملنے والے دنیاوی مال میں اپنے دیس کے باسیوں کو شریک کیا ہے، انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی دولت کا 70 فیصد ملکی خزانے کو پیش کرتے ہیں، ایک بڑی خطیر رقم دلربا مال دنیا کہ ہزاروں کی رال ٹپکتی ہے، پونے دو ارب ڈالر قوم کے سپوت نے قوم کو لوٹا دیئے۔
دیکھا میرے وطن کے تجربہ کار لیٹرو
قوم کو لوٹتے نہیں ہیں لوٹاتے ہیں
پچھلے دنوں جناب پرویز مشرف اور انکے اقتداری قرابت دار شوکت عزیز نے سیلاب فنڈ میں عطیات دینے کا اعلان کیا اور حاتم کی قبر کا درجہ حرات معلوم کرنے کی کوشش کی، ہم کیا کہیں کہ اتنی یہ رقم اعلان تک محدود ہے یا عملی طور پر خرچ بھی کی جائیگی۔ ہماری تو گزارش صرف اتنی ہے کہ وہ پرانے حکمران جتنی دولت لوٹ لے گئے ہیں اس کا نصف بھی اگر قوم کو لوٹا دیں تو ہمارے مفلوج قومی خزانے کے بدن میں ایک خوشگوار توانائی لوٹ آئیگی۔
اور ہاں یہ کام تو سب شرفاء مل کر ہی کریں تو ہمارے قومی رویے میں بھی ایک تازہ ہوا کا جھونکا آئیگا۔ اپنی اپنی جیبیں ذرا ڈھلی ہوں گی تو کچھ خمار فساد بھی کم ہو گا۔ سب ہی کو مل کر اس خمار فساد سے جان چھڑانا ہو گی۔اور یہ تاجر سیاستدان اور سیاسی نوکر شاہی بھی اپنی تجوریاں ٹٹولیں تو ان کو بہت سا فاضل روپیہ اپنی امید سے بھی زیادہ اور تمنا سے بھی زیادہ نظر آئیگا۔ یہ شرفاء بہت ہی شریفانہ طور پر اگر اس رقم کا دس فیصد قومی خزانے کو لوٹا دیں تو تقریباً 50کھرب روپیہ جمع ہو گا۔ ایک سال کا قومی مالی میزانیہ تیار ہو جائے۔ یہودی بینکوں کو آنکھیں دکھانے کے لائق ہو جائینگے۔
ہاں ہاں ہم سب مل کر آگے بڑھیں، یہ ہمارے معزز جج صاحبان اپنے لیے بس ایک مکان کیلئے ایک ایک پلاٹ رکھ لیں اور دوسرا فالتو پلاٹ قومی خزانے کو نذرگزاردیں، بہت سے مفلوک الحال بے گھر ستم رسیدہ سیلاب زدگان کا بھلا ہو گا۔
ہمارے بھاری فیس والے ماہرین طب و جراحت ڈاکٹر صاحبان اپنے پیشے کا صدقہ اتاریں تو اس قومی صدقے کی مد میں بھی اتنی رقم اکٹھی ہو جائے گی کہ حکومت کو سالانہ بجٹ میں صحت کیلئے علیحدہ رقم مختص کرنے کی نوبت نہیں آئیگی۔ ہمارے حارث سٹیل والے اور پاکستان سٹیل مل والے اور وکلاء اور ریٹائرڈ جرنیل بھی اگر اس کار خیر میں اپنی دولت کا نصف دے دیں تو کیا کہنے۔اور ہاں یہ پرائیویٹ ٹیوشن سنٹر سے لیکر پرائیویٹ یونیورسٹیز تک یہ عہد کر لیں کہ ہم اپنی تجارت کا 10 فیصد قومی تعلیم کیلئے عطیہ کرینگے، تو یقین جانیے کہ سیلاب زدہ تمام علاقوں کے سرکاری تعلیمی ادارے بڑی شان سے بحال ہو جائینگے، نئی عمارتیں بنیں گی، خوبصورت اور جدید لیبارٹریز وجود میں آئیں گی اور قابل رشک لائبریریاں متعارف ہو ںگی۔لیکن اس کیلئے جیتے جذبوں اور تڑپتے دلوں کی ضرورت ہے، مال کی محبت جذبوں کو سرد کرتی ہے اور دلوں کو مردہ کرتی ہے …؎
اور پھر فطرت ان کو بدل دیتی ہے
اور کہیں چھپا دیا مظلوم کا تڑپتا دل
اپنی آہ و فغاں سے عرش الٰہی کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، پھر نجانے کیا کیا ہوتا ہے، بارش، طوفان، سیلاب، زلزلے اور بے مروتی کا موت پرور ریلا…؎
آخر زمیں کے نیچے تڑپتا ہے کوئی دل
کیوں ورنہ روز روز یہ آتے ہیں زلزلے

ای پیپر دی نیشن