اصل میں ڈینگی ایک وائرس (Virse) ہے۔ ان کی چار اقسام ہیں۔ یہ مچھر کے ذریعہ انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ موسم نہ گرم، نہ سرد۔ یہ مچھر اسی موسم میں زیادہ ہوتے ہیں۔ ڈینگی وائرس یا کوئی اور وائرس ہوا سے کنٹرول کرنا مشکل ہے۔ مچھر کو سپرے کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ صفائی اور حفاظتی امور بروئے کار لائے جا سکتے ہیں۔
۔ ماہرین یہی مشورہ دیتے ہیں کہ بخار سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسے روکنے کی طرف کوشش کرنے کی ضرورت ہے اگر کسی آدمی کو ڈینگی بخار ہو گیا۔ یہ اچھوت نہیں، و ہ چند روز میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔ گذشتہ سال ہمارے اپنے کئی پروفیسر کو ڈینگی بخار ہوا کمزوری ہوئی مگر وہ ٹھیک ہو کر کام کر رہے ہیں۔ اس کا علاج کچھ نہیں، آرام اور Paracitamol کی گولیاں دو صبح دو شام کافی ہیں۔ پانی، پھل کا رس۔ اللہ کے فضل سے مریض جلد صحت یاب ہو جاتے ہیں اور اللہ کے حضور دعا کی جائے۔ خدا ہمیں اس عذاب سے ہمارے پاکستان کو اس موذی مرض سے نجات دے (آمین) ڈینگی بخار یہ صرف مملکت پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں اس کا وجود موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطاق دنیا میں50 ملین کے قریب انسان اس ڈینگی وائرس کا ہر سال شکار ہوتے ہیں ۔ کوریا، جنوبی ایشیا کے ممالک میں ڈینگی وائرس کو پھیلنے میں آسانی ہے۔
لہذا مچھروں کی افزائش کو روکا جائے، گھر کے اندر برتنوں میں اپنی پانی نہ رکھا جائے۔ بارش کے بعد سیوریج سسٹم کراچی، پشاور لاہور کا نقارہ ثابت ہو گیا۔ ایسا بارش کا پانی مچھروں کی افزائش کے لئے ماحول کےلئے ممدو ثابت ہوتا ہے۔ شام کو بازو اور ٹانگیں ننگی نہ رکھیں۔ مچھر کو روکنے کےلئے رات مچھر سے حفاظتی امور مچھر دانی، لوشن اور دھواں دار چیزیں لگائی جائیں تاکہ بچوں کو مچھر کسی قسم کا نہ کاٹے۔ شام کو اس موسم میں لان، باغات اور ایسی جگہوں سے پرہیز کیا جائے جہاں عام مچھر بھی ہوتا ہے۔
ہونا یہ چا ہئے تھا کہ اس مرض کے پھیلنے سے قبل محکمہ صحت، حکومت کو Anticipate کرنا چاہئے تھا کہ کل اتنے مریض ہوں گے تو کیسے ان کو سنبھالا جائے گا۔ کس طرح ان کا بلڈ ٹیسٹ ہو گا۔ داخل ہونے کی صورت میںBeds کا اہتمام ضروری تھا۔ پلیٹس لیس کٹس کا اہتمام کرنا لازمی تھا۔ ایک اور مسئلہ ہے کہ ڈاکٹروں، پیرامیڈیکل نرسز، لیبارٹری ٹیکنیشن اور ماہرین کی ٹیم تیار رہتی۔ Huts یا کیمپ تیار ہوتے۔ ہر شہری کو ٹیسٹ کرنے کی سہولت ہوتی اور حفاظتی امور کو بروئے کار لایا جاتا۔
وجہ یہ ہے کہ ورکر تربیت یافتہ نہیں۔ ورکرزکی تعداد بیمار مریضوں کی نسبت سے بہت کم ہے اور ورکرز اقربا پروری ، خویش را، سفارش پر بھرتی ہوتے ہیں۔ جس سے صحیح کام نہیں ہوتا۔ وزیراعلیٰ صاحب کی ایک جان ہے کہاں کہاں پہنچ سکتے ہیں۔ ویسے ان کو اپنے دفتر میں بیٹھ کر ایسے عمل کو مانیٹر کرنا چاہئے اور آئندہ ایسی آفات کے لئے ٹیم تیار کرنی ہو گی۔ ڈینگی وائرس اتنا جلدی ختم نہیں ہو سکتا۔ اس کےلئے بڑا پراجیکٹ تیار کرنا ہو گا اور دل لگی سے نگرانی کی ضرورت ہے۔