قومی غیرت و خود مختاری کا تقاضا

Sep 18, 2011

رانا اعجاز احمد خان
میڈیا رپرٹس کے مطابق،11/9حملوں کی دسویں برسی کے موقع پر پاکستان کی طرف سے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مشرقی ایڈیشن میں نصف صفحے کا 38ہزار ڈالر کا اشتہار شائع کرایا گیا۔اشتہار میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کیا گیا۔ ا شتہار کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا، ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ پاکستان کے حکومتی ادارے اس کی ذمہ داری لینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ اشتہار میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ ”کون سا ملک آپ کے امن کیلئے زیادہ کام کر سکتا ہی؟“ اس اشتہار میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہی، قربانیوں کی اس فہرست میں پاک فوج کے 3 ہزار جوانوں کی شہادت کا بھی ذکر شامل ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کا کہنا ہے کہ ، پاکستانی سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ اشتہار کا مقصد امریکا کے اس موقف کی نفی کرنا تھا کہ پاکستان طالبان عسکریت پسندوں کی مدد کر رہا ہے۔ امریکی اخبار کے مطابق فوج کے تعلقات عامہ کے ڈویژن کے ترجمان بریگیڈیئر سید عظمت علی نے تردید کی کہ اس اشتہار کے پیچھے فوج کا ہاتھ تھا اور کہا کہ یہ وزارت انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ کا کام ہے۔ اخبار کے مطابق سرکاری عہدے دار کا کہنا ہے کہ فوج نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اشتہار شائع کرنے کا مشورہ دیا جس کے بعد وزیراعظم نے وزارت اطلاعات کوکہہ دیا۔ وزیراعظم گیلانی کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ سرکاری حکام کے مطابق پاکستانیوں کی کافی تعداد اس اشتہار کو قومی خزانے کا ضیاع سمجھتی ہے۔
اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ اشتہار کس نے کس کے ایما پر یا حکم پر شائع کرایا کیونکہ بعض چیزیںبغیر کسی وضاحت کی ہی واضح ہوتی ہیں البتہ یہ امر تکلیف دہ ضرور ہے کہ آپ جو بات ایک اشتہار کے ذریعے 38ہزار ڈالر خرچ کر کے اپنے آقاﺅں تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ آپ براہ راست کیوں نہیں کر سکتے؟۔ وہاں آپ نے بیک وقت پاکستانی اور امریکی شہریت کی حامل کا آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق ایک سفیر نام کی چیز رکھی ہوئی ہے ۔ آخر اس کا فائدہ کیا کہ آپ کی بات وہ امریکی شہری ہونے کے ناطے آ پ کے اپنے لوگوں تک بھی نہ پہنچا سکے۔
امریکہ کی طرف سے ڈو مور کے تقاضوں کا سلسلہ کبھی رکا اور نہ ہی ان تقاضوں کے سامنے بڑے ادب و احترام کے سر جھکانے کا۔اگر کبھی مشرف کی سابقہ اور زرداری کی موجودہ حکومت نے اپنی مجبوریوں کا رونا رویا تو امریکہ سرکار نے اس کو کوئی اہمیت نہ دی ۔ اس پر اگر کبھی مضبوط موقف اختیار بھی کیا گیا تو امریکی دھمکیوں کے باعث فوجی آمر اور موجودہ حکمرانوں کے غبارے سے جلد ہوا نکل گئی اور انہوں نے پرانی تنخواہ پر ہی نوکری جاری رکھنا گوارہ کر لیا۔گو کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے ڈرون حملوں کے حوالے سے جس عزم کا اظہار کیا اس کو علمی جامہ پہنانے کی نوبت تو نہیں آئی تاہم اگر امریکی عزائم کی راہ میں اگر کوئی مزاحم ہے تو وہ پاک فوج ہی ہے ۔اگر فوج بھی مزاحمت نہ کرتی تو امریکی خواہشات پر شمالی وزیرستان میں کب کا اپریشن ہو چکا ہوتا،کوئٹہ امریکی قونصلیٹ کھل گیا ہوتا، امریکی اور برطانوی دہشتگرد ٹرینرز کی آڑ میں آج بھی اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہوتے۔ فوجی قیادت کی مزاحمت کی وجہ سے ہی امریکہ نے فوجی امداد روکی جبکہ سیاسی حکومت کی امداد اسی طرح جاری رہی جس طرح مشرف دور میں تھی۔پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے لیکن آج کی سیاسی حکومت نے اپنے اندر کے خوف ، اقتدار کی طوالت کی خاطر ملک کی آزادی و خود مختاری امریکہ کے سامنے گروی رکھ دی ہے۔اس کا اللہ اور اپنے عوام کے بجائے بھروسا امریکہ پر ہے۔ آج قوم و ملک کس مشکل اور بحران میں مبتلا نہیں ہیں۔جس کی حکمرانوں کو مطلقاً پرواہ نہیں ہے۔وہ امریکہ کے سامنے سر تسلیمِ خم کئے ہوئے ہیںاور اسی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ایسے میں عوام اگر فوج کی جانب دیکھتے ہیں تو اس میں قصور کس کا ہے ؟۔ اس کا فیصلہ خود حکمران کر لیں۔ فوج کسی صورت بھی اقتدار میں نہیں آنی چاہیئے۔فوج کو اقتدار سے دور رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ حکومت ملکی خود مختاری اور قومی غیرت کا مظاہرہ کرتے سب سے پہلے تو ڈرون حملے بند کرائے،اس کے بعد پاکستان کی امریکی جنگ سے خلاصی کرانے کی کوشش کرے۔ایسا کرنے کے لئے آج پاکستان کے پاس اچھا موقع ہے۔
مزیدخبریں