سیاست اوراخلاقیات ۔ میڈیا کا کردار

حمید نظامی انسٹی ٹیوٹ نے اب کی بار سیمنار کا عنوان ”سیاست اور اخلاقیات ۔۔ میڈیا کا کردار“ تھا حسبِ روایت تلاوت کے بعد ابصارعبدالعلی کا موضوع کی وضاحت اور مفصل بیان کے بعد نوائے وقت کے چیف نیوز ایڈیٹر دلاور چوہدری نے تاریخ کے سیاق و سباق کے حوالے سے سیاست کا عہد با عہد تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں اخلاقیات کی پاسداری تب ہو سکتی ہے جب سیاست خوفِ خدا اور دیانت پر مبنی ہو۔ جزا اور سزا کے تصور کی بہترین مثال خلفائے راشدین کا دور ہے۔ خلفاءنے سیاست کو بادشاہوں کے محلات سے نکال کر گلیوں کی زینت بنا دیا۔ خوفِ خدا کے ساتھ عوام کو جواب دہی کا یہ عالم تھا کہ خلیفہ اول اپنے پہلے خطاب میں فرماتے ہیں ”میں صحیح فیصلہ نہ کر سکوں تو میرا ساتھ نہ دینا، مجھے ٹوک دینا“ ۔ خلیفہ دوم سے ایک عام عرب بدو جواب طلبی کرتا ہے کہ عمر! یہ زیب تن کپڑے کہاں سے لئے، ایک چادر میں یہ لباس نہیں بن سکتا۔ دلاور چودھری نے کہا کہ آج کی سیاست چانکیہ اور میکاولی کی سوچ پر مبنی ہے۔ سیاست دان دعویٰ کچھ اور عمل کچھ کرتے ہیں یہاں ہی نظریہ ضرورت جنم لیتا ہے۔ ہماری سیاست پر انگریزوں کے مراعات یافتہ سیاسی خاندان آج بھی براجمان ہیں اسی طرز سیاست پر عمل پیرا ہو کر عوام کا استحصال اور اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ رکن صوبائی اسمبلی آمنہ الفت نے پُرسوز انداز میں کہا کہ ہم نے سیاست کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ دوسرے تو درکنار خود اپنے اعمال پر ہنسی آتی ہے۔ سیاست کا پہلا سبق معاشرے کے دکھ درد میں شریک ہو کر اسمبلی جا کر مسائل اور دکھوں کا حل تلاش کیا جائے، ہم رویوں کے بحران سے گزر رہے ہیں باقی تمام بحران اسی کی پیداوار ہیں۔ منشاءقاضی نے بتایا کہ ماضی قریب میں ہمارا رہبر سیاست میں جدوجہد عمل پیہم کا کوہ گراں ہونے کے ساتھ عالم دین اور بلند پایہ صحافی کے فرائض بھی سرانجام دے رہا تھا۔ منشاءقاضی نے مولانا ظفر علی، مولانا محمد علی جوہر اور حسرت موہانی کو بطور مثال پیش کیا۔ رکن قومی اسمبلی روحیل اصغر کے مطابق 1985ءکی غیر جماعتی اسمبلی میں کرپٹ سیاستدان نہیں تھے آج بھی چالیس پچاس ہونگے مگر تمام سیاستدانوں کو کرپٹ کہا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے نمائندے جاوید اقبال اپنی جماعت پر ہی تنقید کرنے لگے، انہیں سیاستدانوں سے زیادہ اٹھارہ کروڑ عوام سے شکایات ہیں۔تقریب کے صدر سید فخر امام نے فکر انگیز خطبہ صدارت کا آغاز اپنے گہرے مطالعے، طویل تجربے و فراصت کی روشنی میں دردمندانہ انداز سے کرتے ہوئے کہا کہ ہم مشرقی پاکستان کو بھول گئے۔ 1906ءمیں مسلم لیگ ڈھاکہ میں بنی اور ہندوستان کے ان حصوں سے آواز بلند ہوئی جو آج پاکستان میں شامل نہیں۔ دنیا ایک مقابلے کی دوڑ میں ہے۔ ہماری اخلاقیات کا یہ عالم ہے کوئی اپنی غلطی نہیں مانتا کسی صدر وزیراعظم نے استعفیٰ نہیں دیا۔ 1947ءسے 1970ءتک کوئی جنرل الیکشن نہیں ہوئے جب ہوئے تو نتیجہ کیا نکلا ؟ بلوچ ہمارے بھائی ہیں برابر کے حقدار ہیں انہیں وہ مقام دینا ہوگا۔ موجودہ سوچ ہی بنگال کی علیحدگی کا سبب بنی۔ جب تک اہم اور ابتدائی فیصلوں میں بلوچ شریک نہیں ہونگے تو وہ ساتھ نہیں چلیں گے۔

ای پیپر دی نیشن