وہ ایک چھپا ئی کر نیوا لی کمپنی کے مینجر کے ہا ں پیدا ہو ا اور اسکی پر ور ش رو من کیتھو لک عقا ئد کے مطا بق ہو ئی ۔وہ ا یک لا دین شخص ہے اور اسے اسلا م سے سخت عنا د ہے ۔وہ نیدر لینڈ کے ایوا ن نما ئند گا ن کا رکن رہااور ”پا ر ٹی فور فر یڈ م “کا سر برا ہ بھی ۔جوا نی کے 2سا ل اسرا ئیل کے علا قے موشار میں رہنے سے اسے اسرا ئیل سے خا ص لگا ﺅ پید اہو گیا اور وہ خو د کو اسرا ئیل کا دو ست کہنے لگا ۔ اسرا ئیل سے دو ستی کا یہ عا لم ہے کہ گز شتہ 25سا ل میں وہ چا لیس دفعہ سے زائد اسرا ئیل کا دور ہ کر چکا ہے ۔اس نے ما ر چ2005ءمیں اپنا سیا سی منشور تحر یر کیا ۔جس کے اہم نکا ت میں سے ایک نکتہ یہ تھا ”مسا جد اور اسلا می سکو لو ں کی تعمیر پر 5سا ل تک پا بند ی عا ئد کردی جا ئے ۔مذ ہبی سر گر میو ں میں نما یا ں مسا جد کو بند کر دیا جا ئے اور ایسے مسلما نو ں کو بے دخل کر دیا جا ئے جو مذ ہبی سرگرمیو ں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں“ اس نے 8اگست 2007ءکو ایک اخبا ر ڈی وا لکسکرانٹ کو خط لکھا ،”قر آ ن پر نیدر لینڈ میں پا بند ی لگا دی جا ئے “۔پا ر لیمنٹ میں تقر یر کر تے ہو ئے اس نے ایک دفعہ شکا یتا ً اور نفرت بھر ے لہجے میں کہا ”میڈم سپیکر ! ہما رے ملک میں خوا تین بر قع پہننے لگی ہیں،اشیا ئے خو ر ونو ش کی دکا نو ں پر حلا ل گو شت بکنے لگا ہے ،شر عی امتحا ن کا انعقا د ہو تا ہے ،ہم جنسی کو برا کہا جا نے لگا ہے ،بسو ں اور ٹرینو ں پر عر بی لکھی نظر آ تی ہے “۔ وہ اپنی جا ریحا نہ سرگرمیوں اور اسلا م دشمنی کی بنا ءپر نید ر لینڈ میں 2008ءکا سب سے زیا دہ غیر محفو ظ سیا ستدا ن بن گیا ۔وہ حکو مت کی طر ف سے تعینا ت کیے گئے محا فظو ں کے بغیر حر کت نہیں کر سکتا ۔اس سے ملنے وا لے ہر شخص کی جا مع تلا شی لی جا تی ہے ۔اس نے ایک سا بق سفا رت کا ر خا تو ن سے شا دی کی جس سے وہ سکیو رٹی خد شا ت کی وجہ سے ہفتے میںصرف ایک دفعہ مل سکتا ہے ۔اسکی ذا تی زند گی مفلو ج ہو کر رہ گئی ہے ۔ایک و قت آیا کہ جب دنیا بھر کے امن پسند اورخو د نید ر لینڈ کے 43فیصد لو گ اسے حقا رت کی نگا ہ سے دیکھنے لگے ۔ حکو مت بر طا نیہ نے اسے معا شر ے کے بنیا دی مفا دا ت کےخلا ف خطر ہ قرار دیتے ہو ئے 12فرور ی 2009ءکو بر طا نیہ میں داخلے پر پا بند ی عا ئد کر دی۔
ڈنما ر ک کے اس سیا ستدا ن کا نام گیر ٹ ولڈر زہے ۔جس نے 27ما رچ 2008ءکو سو لہ منٹ اور اڑ تا لیس سیکنڈ کی فلم ”فتنہ“بنا کر پور ی دنیا کے مسلما نو ں کی شدید دل آ زا ری کی ۔فلم میں 11ستمبر 2001ءکے دہشتگردی کے وا قعے، 11مارچ 2004ءمیڈ رڈ ٹر ین دھما کہ اور 7جو لا ئی 2005لند ن میں زیر زمین ٹر ین میں ہو نے وا لے دھما کے کے منا ظر دکھا کر اسلا م او رحضو ر کی تعلیما ت کو تنقید کا نشا نہ بنا یا۔فلم کے منظر عا م آ نے پر دنیا بھر کے مسلما نو ں نے احتجا ج کا سلسہ شروع کر دیا ۔ مسلما ن صا ر فین نے ڈنما ر ک کی مصنو عا ت کو رد کر دیا ۔مسلم مما لک میں ڈنما رک کے سفا رت کا رو ں کو شدید تنقید کا سا منا کر نا پڑا۔چند اسلا می مما لک نے مختلف ویب سا ئٹس پر پا بند ی لگا دی جس سے مسلم اورغیر مسلم دنیا میں ایک بار پھرخلیج پیدا ہو گئی۔ اس سے پہلے1989ءمیں سلما ن رشد ی ملعو ن نے ایک نا ول کے ذریعے آ یا ت قر آ نی کا مذا ق اڑا یا جس پر مغر ب نے نہ صرف اسے تحفظ فرا ہم کیا ،پنا ہ دی بلکہ ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ 2002ءمیں ایک امر یکی لیڈر جیری فا لو یل نے حضو ر کے حوا لے سے انتہا ئی نا زیبا الفا ظ استعما ل کیے لیکن انسا نی حقو ق کے علمبر دا ر مغر بی مما لک نے اس کی کبھی سر زنش نہ کی ۔2005ءمیں نیو ز و یک میں گوا نتا نامو بے جیل میں قر آ ن پا ک کی بے حر متی کی خبر چھپی مگر امرےکہ ےا اس کے اتحادےوں نے کبھی اس کی مذمت نہےں کی۔فرور ی 2006ءمیں ڈنما ر ک کے ایک اخبا ر ”جا ئلینڈ ز پو سٹن “نے حضو ر کے با رہ گستا خا نہ خا کے شا ئع کیے ۔یہ خا کے ڈنما ر ک کے ایک کا ر ٹو نسٹ’ کر ٹ ویسٹر گا رڈ“ نے بنا ئے، جسے بعد میں سیفو ایوا ر ڈ سے نوا زا گیا۔جو لا ئی 2007ءمیں سو یڈ ن کے مصور ”لا ر س ولکس“ نے اسلا م اور حضو ر کی گستا خا نہ تصویر کشی کی۔جوتصا و یر 18اگست 2007ءکو دیگر اخبا رو ں کے سا تھ ایک بڑ ے اخبا ر ” نیر یکیس الیحا نڈا“ نے بھی شا ئع کیں ۔ کچھ عرصہ قبل نا ر ویجن پا ر لیمنٹ کے نا ئب صدر، بز نس سٹڈ یز اور اقتصا د یا ت کے ما ہر ©©©”کا ر ل آ ئیو ر ہیگن“ کی کتا ب ”او نسٹلی“ منظر عا م پر آئی جس میں نہ صر ف مسلما نو ں کےخلا ف بلکہ نعو ذ با للہ حضو ر کی شا ن میں تو ہین آ میز کلما ت شا ئع کیے گئے ۔ہیگن نسلی تفر قے پر یقین ر کھتا ہے اور دوسر ے مما لک سے آ ئے نا ر وے میں مقیم لو گو ں کو بر ی نگا ہ سے دیکھتا ہے ۔اس پر متعدد با ر اسلا م اور مسلما ن مخا لف سو چ رکھنے کا الزا م لگا یا گیا ۔اس نے اپنی کتا ب میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر اسرا ئیل مشر ق وسطیٰ میں اپنا کنٹرو ل حا صل کر نے میں نا کا م ہو گےا تو پھر جلد ہی اسلا م مغر ب میں ایک انتہا پسند قوت کے طور پر ابھر کر سا منے آ ئے گا ۔ 2006ءمیں ہو نیوا لے ایک سر وے کے مطا بق 32فیصد بر طا نو ی ،41فیصد فرا نسیسی ،52فیصد جر من اور 60فیصد ہسپا نو ی با شند ے مسلما نو ں کو انتہا پسند سمجھتے ہیں ۔بر طا نو ی ہو م آ فس کی اےک رپو ر ٹ نے ثا بت کر دیاہے کہ دہشتگرد ی میں غیر مسلمو ں کی ایک بہت بڑی تعدا د بھی ملو ث ہے ۔بر طا نیہ کے ہو م آ فس نے اگست2005ءسے 31 مارچ2009ءتک 101 لو گو ں کو نا قا بل قبو ل اور متنا ز عہ سر گر میو ں میں ملو ث ہو نے پر بر طا نیہ میں دا خل ہو نے پر پا بند ی عا ئدکر دی۔ان میں سے 22پر سیکر ٹر ی ہو م آ فس جیکو ی سمتھ نے 28اکتو بر 2008ءسے 31ما ر چ 2009ءکے درمیا ن پا بند ی لگا ئی ۔اور سب سے اہم با ت یہ ہے کہ ان میں نصف سے زا ئد کا تعلق اسلا م سے دور تک کا بھی نہیں ۔عا لم اسلا م پرتازہ زخم اس وقت لگا جب رواں ماہ ایک انتہا پسندامریکی پادری ٹیری جونز نے اسلام دشمن اور حضور کی شان کے خلاف فلم کی تیاری اور اسکی تشہیر میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اسکا ٹریلر جاری کرنے کا اعلان کیا۔ اس فلم کے بنانے میںکیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی نژاد امریکی” سیم بسائل “کا بھی کردار ہے۔ ٹیری جونز ہی نے 2010میں قرآن کو نذر آتش کرنے کا منصوبہ بنایا اور 2012میں اسنے قرآنی نسخے کو نذر آتش کر کے کروڑوں مسلمانوں کی دلآزاری بھی کی تھی۔اگر اسی وقت مسلم امہ اور او آئی سی نے دینی حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے واویلا مچایا ہوتا تو آج ٹیری جونز ایک اور قدم نہ اٹھاتا۔اگر امریکہ وکی لیکس کے بانی آسٹریلوی شہری جولین اسانج( جس نے وکی لیکس کے ذریعے امریکہ کی چند سیاہ کاریوں کا انکشاف کیا)کی گرفتاری سے لیکر اسکے خلاف عدالتی مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کر سکتا ہے تو اپنے ہی شہری ٹیری جونز کے خلاف مسلمانوں کے جزبات مجروح کرنے کا مقدمہ قائم کیوں نہیں کر تا۔ اور ےوں 1400سا لہ تا ر یخ میں با ر ہا دفعہ اسلا م کو تنقید کا نشا نہ بنا یا گیا ۔اسلا م کی مقدس ہستیوں کی شا ن میں گستا خی کی گئی۔لیکن جوا ب میں کبھی کسی نا دا ن مسلما ن تک نے بھی حضر ت مو سیؑ ،حضر ت عیسیؑ یا کسی بھی پیغمبر کی شا ن میں گستا خی نہیں کی۔ مسلما ن اگر کسی بھی پیغمبر پر ایما ن نہ لا ئے یا ان کی شا ن میں گستا خی تو دور‘ تصور بھی کر ے تو اسکا اپنا ایما ن خطر ے میں پڑ جا تا ہے۔ لےکن دنےائے مغرب نے کبھی اس حقےقت کو سمجھنے کی کوشش نھےںکی۔
3اپر یل 2008ءکوایک امر یکی ما ہر تعلیم ،مصنف اورسیا سی تجز یہ نگا ر ”ڈینیئل پا ئپز“نے یرو شلم پو سٹ میں لکھا ”اسلا م کے سنہر ی اصو لو ں کی وجہ سے اسلا م مغر ب میں تیز ی سے پھیل رہا ہے“۔27ما رچ2006ءکو سا بق بر طا نو ی وز یر اعظم ٹو نی بلیئر نے قر آ ن کو ان الفا ظ میںخرا ج تحسین پیش کیا ”قر آ ن کے با رے میں انتہا ئی قابل تعر یف با ت یہ ہے کہ یہ ایک جد ت پسند کتا ب ہے ۔میں دو سر ے مذ ہب کا پیرو کا ر ہو نے کی حیثیت سے عا جز ی سے کہو ں گا کہ میں قرآن پر تبصر ہ کر نے کا اہل نہیں لیکن میں نے قرآ ن کو ایک اصلا ح پسند کتا ب کے طور پر پایا ہے ۔یہ سائنسی علو م کا مخز ن ،حصو ل علم کی حوصلہ افزا ئی اور توہمات کی حو صلہ شکنی کر تی ہے ۔ شا دی بیا ہ ،خوا تین اور اصو ل حکمرا نی میں اپنے وقت کی رہنما ہے ۔اس کی رہنما ئی میں اسلا م حیرا ن کن لحا ظ سے پھیلا ۔کئی صدیو ں تک اس نے فنو ن اور ثقا فت میں دنیا کی قیا دت کی “۔دکھ اس امرکا ہے کہ حضور اوراسلام کی شان میںہونے والی گستاخی پر ستاون مسلم ممالک کی تنظےم او آئی سی کے خون مےں کبھی ابال تک نہےںآےا اوربائےس ممالک پر مشتمل عرب لےگ فقط اپنے مفادات کی کھےتی کو سےنچنے کی فکر مند ہے۔آ قا اس بے حسی اور بے بسی پر ہم اپنے ضمیر کے کٹہر ے میں کھڑے ہےں ! ۔آ قا ہم نا د م ہےں اور تسلیم کر تے ہےں کہ ہر ملک ملکِ ما است کہ ملکِ خدا ئے ما است کہنے وا لے آ ج دنیا کو یہ تک ثا بت نہیں کر پا ئے کہ آ پ تو تمام عا لمین کےلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ۔آ قا ہم اپنی مدد کےلئے ابا بیلو ں کا انتظا ر کر تے رہے اور وقت نے ہمیں نا توا ں کر دیا ۔ آ قا ہم کبھی دنیا کے ظا لمو ں کےلئے دہشت ہو ا کر تے تھے لےکن و قت کی دھول اور گر د نے ہمےں دہشت گرد بنا دےا ۔آ قا ہم گنہگا رو ں کی شفا عت کر دیجئے گا ہم تو فرا نسیسی مسلما ن بہنوں کے پردو ں پر لگنے وا لی پا بند ی کی مذمت تک نہ کر سکے ۔آ قا ہما رے آ نکھو ں سے بہنے وا لے ندا مت کے آ نسو ﺅ ں کو مو تی سمجھ کر چن لیجئے گا کہ ہم ا یک نہیںچھپن مما لک تھے لیکن آ پکی شا ن میں ہو نیوا لی گستا خی پر اپنے ہی ہا تھو ں سے اپنے ہو نٹ سیتے چلے گئے ۔ آ قاہم اپنے ضمیر کے کٹہر ے میں شرمندہ کھڑے ہےں!۔