وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ عوام نے انہیں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا مینڈیٹ دیا ہے۔ پاکستان کور ایشو کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کیلئے بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ ترکی کے سرکاری دورے پر پہنچنے کے بعد گزشتہ روز انقرہ میں ترک ریڈیو اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک سے انٹرویو کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہاءپسندی عالمی طور پر پائی جانیوالی لعنت ہے اور اس کیخلاف لڑنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انکے بقول خطے میں دہشت گردی ماضی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اگر عالمی برادری اور ہمسایہ ممالک دہشت گردوں کو رقم‘ اسلحہ اور تربیت کی فراہمی روکنے میں تعاون کریں تو اس لعنت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن اور مفاہمت کیلئے ہم صرف سیاسی جماعتوں سے ہی نہیں‘ بلکہ ان سے بھی بات چیت کیلئے تیار ہیں جو انتہاءپسندی چھوڑ دیں تاکہ مزید جانیں ضائع نہ ہوں۔ طاقت کا استعمال آخری آپشن ہو گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کنٹرول لائن پر حالیہ کشیدگی ہمارے لئے تشویش کا باعث ہے تاہم پاکستان تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔ میں پاکستان کے اس عزم کو دہراتا ہوں کہ ہم بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات سنجیدہ‘ ٹھوس اور تعمیری بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد میاں نوازشریف نے ملک کو اقتصادی‘ معاشی اور توانائی کے مسائل سے نجات دلانے کیلئے بیرونی دنیا سے اچھے مراسم اور سازگار تعلقات استوار کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے جو ملک کی بہتری اور مفاد میں ایک مثبت اور تعمیری پالیسی ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے چین کا دورہ کیا‘ جہاں توانائی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چین کا تعاون حاصل کرنے کیلئے انہوں نے متعدد معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کئے جبکہ گوادر پورٹ پر پہلے ہی چین تعمیراتی کام کر رہا ہے۔ میاں نوازشریف نے اسی طرح برادر اسلامی ملک سعودی عرب کا دورہ کرکے بھی باہمی تعاون کے متعدد معاہدوں پر دستخط کئے۔ پاک سعودی تعلقات پہلے بھی ہمیشہ مثالی رہے ہیں جبکہ موجودہ حکومت نے ان تعلقات کے استحکام میں پیش رفت کی ہے جس کے ہماری معیشت و معاشرت پر یقیناً دوررس اثرات مرتب ہونگے۔ اب وہ اپنی کابینہ اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ہمراہ ترکی کے دورے پر ہیں تو ان کا یہ دورہ بھی پاک ترکی تعلقات کے استحکام کا باعث بنے گا۔ برادر ترکی پہلے ہی متعدد منصوبوں بالخصوص پنجاب میں ہماری قومی اور علاقائی ترقی میں معاونت کر رہا ہے جبکہ ترکی کے موجودہ مثالی جمہوری نظام کے تجربات سے استفادہ کرکے ہمارے ملک میں بھی جمہوری استحکام کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ روز ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان نے میاں نوازشریف کو ترکی کے سب سے بڑے اعزاز ”تمغہ¿ جمہوریت“ سے بھی سرفراز کیا۔ وزیراعظم نے ترکی کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی بھی دعوت دی ہے جس کے یقینًا ہماری معیشت کیلئے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ تاہم دورہ¿ ترکی کے دوران بھی وزیراعظم نوازشریف کا بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کیلئے فکرمند ہونا اور یہ باور کرانا سمجھ سے بالاتر ہے کہ انہیں عوام نے انتخابات میں بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کا ہی مینڈیٹ دیا ہے۔ وہ دورہ¿ ترکی پر ہیں‘ جہاں انہیں پاکستان ترک تعلقات کے استحکام کی بنیادیں استوار کرنی ہیں اور توانائی سمیت جس جس شعبے میں بھی ترکی کا تعاون حاصل ہو سکتا ہے‘ اسکی راہ ہموار کرنی ہے مگر اسکے برعکس وہ ترکی میں بیٹھ کر بھارت سے تعلقات کی بہتری کا سوچ رہے ہیں۔
اس میں کیا شک ہے کہ اگر پڑوسی ممالک کے تعلقات ایک دوسرے کے ساتھ سازگار ہوں اور وہ علاقائی امن و آشتی کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہوں تو اس سے علاقائی امن و سلامتی کی ہی ضمانت نہیں ملتی‘ اپنے اپنے عوام کی خوشحالی اور ملکی ترقی کی راہیں بھی نکلتی اور استوار ہوتی ہیں مگر اس کیلئے پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصولوں کے تحت ایک دوسرے کی آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی کا احترام پیش نظر رکھنا ہوتا ہے جس سے ہمارا پڑوسی بھارت نہ صرف عاری ہے‘ بلکہ ہماری سلامتی اور آزادی و خودمختاری پر وار کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اس تناظر میں ہماری سلامتی کیخلاف بھارتی سازشوں پر مبنی ہمارا ماضی بھی انتہائی تلخ ہے اور بھارت کی پیدا کردہ کشیدگی کی موجودہ صورتحال بھی اسکی پاکستان دشمنی کی عکاسی کر رہی ہے۔
میاں نوازشریف نے تو انتخابات کے نتائج سامنے آتے ہی اپنی پارٹی کی کامیابی کا جشن مناتے پارٹی کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کے دوران اپنی حلف برادری کی تقریب میں بھارتی وزیراعظم من موہن کو مدعو کرنے کی خواہش کا اظہار کر دیا اور یہ اعلان بھی کردیا تھاکہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ اکتوبر 1999ءمیں جہاں سے ٹوٹا تھا‘ ہم وہیں سے اسے جوڑ کر بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے۔ انہوں نے نہ جانے کس بنیاد پر بھارت کے ساتھ خوشگوار مراسم کی توقع باندھی اور اس یکطرفہ سرشاری کا اظہار بھی کر دیا کہ بھارتی حکومت انہیں چاہے باضابطہ طور پر مدعو کرے یا نہ کرے‘ وہ خود بھارت جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اسکے برعکس بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر مسلسل فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھ کر اور ہمیں بھارتی حکومت اور عسکری قیادتوں کی جانب سے سنگین نتائج بشمول جنگ کی دھمکیاں دے کر باہمی تعلقات میں مزید سردمہری اور مزید کشیدگی کو فروغ دیا گیا۔ پاکستان کے ہائی کمیشن آفس‘ دوستی بسوں اور سمجھوتہ ایکسپریس پر حملوں تک سے گریز نہ کیا گیا۔ پاکستانی کھلاڑیوں اور فنکاروں کو بھارت کے ویزے جاری کرنے سے انکار کیا گیا اور کشیدگی بڑھانے کا جو بھی دوسرا اقدام ممکن ہو سکتا تھا‘ وہ اٹھایا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ کشمیر کے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی گردان بھی برقرار رکھی گئی اور ہر موقع بے موقع پاکستان پر دراندازی کا الزام لگانا اپنا مشن بنا لیا گیا۔ ایسی فضا میں ہماری حکومتی قیادتوں کی جانب سے بھارت کے ساتھ دوستی‘ تعلقات کی بہتری اور مذاکرات کی بات کرنا قومی مفادات کے تقاضوں سے کسی صورت ہم آہنگ نظر نہیں آتا۔ آئندہ سال منعقد ہونیوالے بھارتی انتخابات کے پیش نظر پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو فروغ دینا ویسے ہی بھارتی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ بن چکا ہے جس میں ہر قسم کے بے سروپا الزامات پاکستان پر دھرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جا رہی۔ بھارتی اپوزیشن بی جے پی کی قیادت تو اس میں پیش پیش ہے جبکہ حکومتی پارٹی کانگرس بھی پوائنٹ سکورنگ کیلئے ہر معاملے میں پاکستان کو موردالزام ٹھہرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ تو اس ماہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم پاکستان سے اپنی مجوزہ ملاقات کے امکانات کو بھی رد کر چکے ہیں اور سرحدی کشیدگی کا الزام بھی الٹا پاکستان پر دھر چکے ہیں جبکہ بی جے پی کے وزیراعظم کے نامزد امیدوار نریندر مودی ابھی سے پاکستان کو آنکھیں دکھا رہے ہیں اور پاکستان کی بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی خواہش کو محض ڈرامہ قرار دے کر پاکستان کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اپنی ممکنہ پالیسیوں کو بھی انہوں نے اجاگر کر دیا ہے۔ اگر بھارتی انتخابات کے بعد وہاں بی جے پی برسراقتدار آتی ہے تو اسکے ساتھ میاں نوازشریف مذاکرات کا سلسلہ 1999ءسے جوڑنے کی خواہش کیسے پوری کر پائیں گے۔
میاں نوازشریف کو ترکی میں بیٹھ کر بھی اس کا احساس ہے کہ عالمی برادری اور ہمسایہ ممالک دہشت گردوں کو تربیت‘ رقم اور اسلحہ کی فراہمی روکنے میں مدد کریں تو دہشت گردی کا تدارک ہو سکتا ہے۔ اگر ہماری ایجنسیوں کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف دہشت گردی کے جن اسباب کی نشاندہی کر رہے ہیں‘ وہ زیادہ تر اسی بھارت کے پیدا کردہ ہیں جس کے ساتھ وہ سازگار دوستانہ تعلقات کی یکطرفہ خواہش رکھتے ہیں تو دہشت گردی کے اسباب پیدا کرنیوالے اس ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ میں معاونت کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ امر بعیدازقیاس ہے کہ وزیراعظم کو خارجہ تعلقات کے حوالے سے ملکی اور قومی مفادات کا ادراک نہیں ہو گا اس لئے وہ ترکی جا کر بھی بھارت کے ساتھ اچھے مراسم کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں تو یہ قوم کیلئے انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے۔ ادھر میاں صاحب نے واشنگٹن میں بھارتی وزیر اعظم سے متوقع ملاقات کو بہت اہمیت دینی شروع کی ہے جس کے بارے میں ان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بیان اخبارات میں چھپا ہے کہ اس ملاقات سے زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں!