غزہ کی تباہی کا اصل سبب

Sep 18, 2014

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے غزہ کی تباہی اور اُسکے پُرامن شہریوں کے قتلِ عام کا اصل سبب عیاں ہوتا چلا آ رہا ہے۔ 9ستمبر2014ء کے نیویارک ٹائمز میں راجر کوہن نے اپنے مختصر مضمون میں اسرائیلی جارحیت کے ارتکاب کی بنیادی وجہ ’’فلسطینیوں کو تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی صہیونی سیاسی حکمتِ عملی بتائی ہے۔ امرِ واقعہ بھی یہی ہے کہ غزہ میںاسرائیل کی ریاستی دہشتگردی کا فوری محرک فلسطینیوں کی دو حریت پسند تنظیموں، الفتح اور حماس کی سیاسی یگانگت نے اسرائیل اور اُسکے ہمسایہ عرب ممالک کی حکومتوں کو لرزہ براندام کر دیا ہے۔ الفتح ایک قوم پرست اور اشتراکیت پسند تنظیم ہے جو مغربی کنارے پر حکمران چلی آ رہی ہے۔ اِسکے مقابلے میں حماس اسلامی جمہوریت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ہر دو تنظیموں کا اتحاد اسرائیل اور اُسکے در پردہ حلیف ہمسایہ ممالک کی آمریت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا تھا۔ اِس خطرے کے تدارک کی خاطر غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے اور یہاں کے باشندوں کو گھیر گھار کر موت کے گھاٹ اُتار دینے کی کارروائی کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ پر اسرائیلی بربریت کے آغاز کے ساتھ ہی مصر نے غزہ کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی تھی۔
حماس کا پورا نام ’حرکت المقومہ الاسلامیہ‘ کا مخفف ہے جس کا مطلب ہے اسلامی تحریکِ مزاحمت۔ اس کا قیام 14ستمبر 1987ء کو اخوان المسلمون کے اجلاس منعقدہ فلسطین میں عمل میں آیا تھا۔ اسکے پہلے رہنما شیخ احمد یاسین مقرر ہوئے تھے۔ لفظ حماس کا ایک مطلب جوش و جنوں بھی لیا جاتا ہے۔ فلسطین کی یہ حریت پسند تنظیم مصر اور اردن کے اخوان المسلمون تنظیموں کا اٹوٹ انگ کہلاتی ہے۔ یاد رہے کہ اخوان المسلمون کا قیام 1936ء میں عمل میں آیا تھا۔ ہر چند اُسی زمانے سے یہ تنظیم فلسطین میں سرگرمِ عمل ہے تاہم ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد فلسطین میں اِس اسلامی تحریک نے زور پکڑا ہے۔ فلسطینیوں کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین نے غزہ کو حماس کی اِس اسلامی تحریک کا مرکز بنا دیا تھا۔ شیخ احمد یاسین کا ایک مقبولِ عام قول یہ ہے کہ جب دُنیا کے سب دروازے بند ہو جاتے ہیں تب اللہ کا دروازہ کُھلتا ہے۔ یہ تنظیم مشرقِ وسطیٰ اور مغربِ اقصیٰ کے مختلف ممالک میں سرگرمِ کار ہے اور ہر ملک کے مخصوص حالات کے تناظر میں جہد آزما ہے۔ مثلاً الجزائر میں یہی تنظیم جمہوری فکر و عمل کے ساتھ سوشل موومنٹ فارپیس کے نام سے موسوم ہے۔ غزہ میں سیاست کے ساتھ ساتھ معاشرت میں بھی حماس قابلِ قدر کام کر رہی ہے۔ سکول، مساجد، میڈیکل کلینک، سپورٹس کلب کے سے متعدد رفاعی اور فلاحی ادارے حماس کی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِسکی مقبولیت میں اضافہ روز افزوں ہے۔ حماس کی یہی مقبولیت اسرائیل کے ساتھ ساتھ آس پاس کے اُن ممالک کی حکومتوں کیلئے بھی خطرہ بن چکی ہے جہاں بادشاہت یا آمریت کے نظام اپنی آخری ہچکیاں لے رہے ہیں۔غزہ میں جنگ بندی کے فقط چند روز بعد اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے کی 988 ایکڑ اراضی کو باقاعدہ اپنی ریاست میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ آج تک اسرائیل کی اِس توسیع پسندی کی مذمت میںکسی ایک مسلمان ملک نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اسرائیل کے درپردہ حامی عربی ممالک کے رعب کا یہ عالم ہے کہ پاکستان میں حکمران مسلم لیگ نے ایک خاص تاریخ کو غزہ کے فلسطینیوں کی حمایت میں جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ وہ تاریخ آئی اور گذر گئی نہ کوئی جلسہ ہوا، نہ جلوس نکلا اور نہ ہی حزبِ اختلاف کی کسی جماعت نے حزبِ اقتدار کی اِس کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
جہاں تک فلسطین کے ہمسایہ ممالک کے ردعمل کا تعلق ہے وہ اِس اعتبار سے قابلِ فہم ہے کہ یہاں یا تو آمریت ہے اور یا خاندانی بادشاہت۔ حماس اسلامی جمہوریت کی علمبردار ہے۔ تین سال پیشتر عرب بیداری (Arab Spring) کی مسلسل بلند سے بلند تر ہوتی ہوئی مُنہ زور لہروں نے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ عربوں نے اِس بیداری کو موت کی نیند سُلانے کا ہر حربہ آزما دیکھا ہے۔ اِسکے باوجود جبر و تشدد اور قتل و غارت ابھی تک حکمرانوں کے اندیشہ ہائے دور و دراز کو دُور نہیں کر سکی۔ غزہ میں حماس کی جانب سے اسلامی جمہوریت کا چرچا مصر کیلئے بطورِ خاص پریشان کن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول کریم فہیم جہاں دیگر ہمسایہ ممالک نے غزہ کے مظلومین کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرنے میں غفلت کا ارتکاب کیا وہاں مصر کے حکمرانوں نے اسرائیل کو شاباش دیتے ہوئے حماس کی برملا مذمت کی ہے۔ مصر، یمن اور تیونس کے عوام نے غزہ کے فلسطینیوں کی امداد کی خاطر چھوٹے موٹے جلوس ضرور نکالے مگر حکمرانوں کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی۔ اِسکے برعکس مصر کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے حماس کو کم از کم چالیس فلسطینیوں کی شہادت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اسرائیلی قاتلوں کا حوصلہ بڑھا کر خود اسرائیلیوں کو حیرت میں ڈال دیا:
"On Twitter, Anshel Pfeffer, a writer of Haaretz, the left-learning Israeli newspaper, encapsulated the surprise at the turn of events: 'Incredible that # Israel is going into # Gaza and the greatest Arab state, # Egypt is not saying a word of criticism, just blaming # Hamas." (New York Times, 21.7.2014)
اب تک دُنیائے اسلام کے دو ممالک: ترکی اور قطر نے اخوان المسلمون اور حماس کے سرکردہ لیڈروں سے ناروا سلوک کرنے سے احتراز کیا ہے۔ اِس باب میں قطر کی ثابت قدمی قابلِ تحسین ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور خلیج کی دیگر ریاستوں کے دبائو میں نہ آنے کی پاداش میں سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر سے اپنے اپنے سفیر واپس بلالیے ہیں۔ اِس دبائو کے باوجود قطر نے اب تک نہ تو اپنے ملک میں مقیم اخوان اور حماس رہنمائوں کو ملک بدر کرنے کی حامی بھری ہے اور نہ الجزیرہ نیوز چینل کی نشریاتی پالیسی میں کوئی ترمیم کی ہے۔ قاہرہ، ریاض اور ابوظہبی کو شکایت ہے کہ الجزیرہ چینل اخوان المسلمون اور اُسکی حماس کی سی تنظیموں کے نظریات کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ خلیج میں اپنی تنہائی کے باوجود قطر نے اب تک خلیج تعاون کونسل کے اِن رکن ممالک کی شکایات پر کان نہیں دھرا مگر رائٹرز نیوز ایجنسی کی ایک رپورٹ (ڈان، 14ستمبر) کے مطابق اب اِن ممالک کیساتھ ساتھ واشنگٹن کی سی عالمی طاقتیں بھی اِس باب میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے لگی ہیں۔
آج کی دُنیائے اسلام کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمان حکمران اسلام کے جمہوری نظامِ سیاست کی ترویج و اشاعت سے خائف ہیں۔ وہ اس اندیشۂ تاریک میں مبتلا ہیں کہ اسلامی جمہوریت کا فروغ و استحکام اُنکے تخت و تاج کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ اس خطرے کے تدارک کی خاطر وہ خود بھی ظلم و ستم اور جبر و تشدد کا ہر گُر آزمانے میں مصروف ہیں اور سات سمندر پار بیٹھے ہوئے اپنے آقائوں سے بھی مدد اور تعاون خریدنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں اُنکے پنجۂ استبداد میں تڑپتی ہوئی خلقِ خُدا تسلیم و رضا کی حکمتِ عملی پر کاربند رہنے سے انکاری ہے۔ اس صورتحال میں غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیل کے ظلم و ستم پر غور کریں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے غزہ کے فلسطینیوں پر اسرائیل نے نہیں خود اُنکے ہمسایہ ممالک کے مسلمان حکمرانوں نے ظلم کے پہاڑ ڈھائے ہیں۔

مزیدخبریں