یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس میں افغانستان کی اہمیت

Sep 18, 2015

مصطفی کمال پاشا

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 21-22 ستمبر کو منعقد ہونیوالے اجلاس میں ’’افغانستان‘‘ سرفہرست ہے، امریکی صدر باراک حسین اوباما کے علاوہ وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف بھی اجلاس سے خطاب فرمائیں گے۔ افغانستان اور مسئلہ افغانستان گزشتہ تین اور نصف دہائیوں (1979 سے 2015) سے دنیائے سیاست پر انتہائی اہم ایشو کے طور پر چھایا ہوا ہے، دسمبر 1979ء میں اشتراکی افواج نے دریائے آمو عبور کر کے افغانستان پر قبضہ کیا اور عالم مغرب اور عالم اسلام نے مشترکہ طور پر اشتراکی جارحیت کے خلاف سینہ سپر افغان عوام کی پشت پناہی کا فیصلہ کیا اور افغان عوام کی تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں اشتراکی افواج 1989ء میں افغانستان سے شکست خوردگی کا داغ لئے واپس لوٹ گئیں روسی جارحیت کی 500 سالہ تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ روسیوں نے کسی ملک پر چڑھائی کی۔ قبضہ کیا۔ اسے اپنی ریاست میں ضم کیا اور پھر ناکام ہو کر واپس لوٹ گئیں، افغانستان سے سوویت افواج کی واپسی کے بعد ایک سال کے اندر اندر عظیم اشتراکی ریاست 15ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر عالمی منظر سے محو ہو گئی۔
پھر امریکی سامراجیت کھل کر سامنے آئی، نوکویاما کی (End of History) اور ہٹگھٹن کی (Clash Of Civilizations) کی تاریخ ساز تحریروں نے مفید انسان اور مغربی تہذیب وتمدن کی برتری اور حکمرانی کے بارے میں عالمی رائے عامہ کو خوب متاثر کیا پھر امریکی اتحادیوں کی عراق پر یلغار نے ان کی برتری پر مہر تصدیق ثبت کردی، امریکہ نے آپریشن ڈیزرٹ سٹارم اور ڈیزرٹ شیلڈ کے ذریعے اتنی عسکری برتری ثابت کردی۔ اسی پس منظر میں امریکہ نے دنیا کی نئی جغرافیائی تنظیم وترتیب کا اعلان کردیا۔ بالخصوص مشرق وسطی کی نئی جغرافیائی حد بندیوں کا اعلان کیا، یہی سب کچھ جاری تھا کہ2001 میں 9/11 ہو گیا۔ امریکی رعونت اور فرعونیت کا بت پاش پاش ہوگیا۔
افغانستان میں لشکر کشی کے بعد دہشت گردوں کی معاونت کے الزام میں عراق پر بھی لشکر کشی کر دی گئی۔ صدام حسین حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ نے وہاں اپنی نئی صف بندی منصوبے کیمطابق مخلوط حکومت قائم کی۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں امریکی معیشت زیر بار آئی۔ القاعدہ اور طالبان کو حتمی شکست نہ دی جا سکی امریکی عسکری قیادت نے اپنی سیاسی قیادت کو واشگاف الفاظ میں بتایا دیا کہ ’’افغانستان میں جنگ جیتی نہیں جا سکتی ہے‘‘ باراک اوباما نے افغانستان میں ملٹری آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا پھر افغانستان میں اپنی ’’ہمدرد اور دوست‘‘ حکومت کے قیام اور استحکام کی کاوشیں شروع ہوئیں۔ طالبان سے مذاکرات اور انہیں حکومت کا حصہ بننے کی دعوت دی گئی۔ قطر سے لیکر اسلام آباد تک مذاکرات کی کاوشیں ہوتی رہیں لیکن اس میں کامیابی نہیں ہو سکی۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ خطے میں چائنہ، پاکستان اکنامک کاریڈور کے اجراء کے ساتھ ہی چین، خطے میں ایک انتہائی اہم کھلاڑی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے پاکستان کا روس کیساتھ تجارتی معاہدہ بھی ہو گیا ہے جس کے تحت روس پاکستان میں 3.4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریگا۔ پاکستان خطے میں چین اور روس کے حوالے سے فرنٹ لائن ریاست بن چکا ہے۔ امریکیوں نے پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کم کرنے کیلئے ویراتی بندرگاہ چاہ بہار کو متبادل راستے کے طور پر اجاگر کرنے کی کوششیں کی ہیں کچھ خلیجی ممالک نے گوادر پورٹ کی اہمیت کم کرنے کی کاوشیں کیں، بھارت سرکار نے پاکستان کو ٹارگٹ کیا تاکہ یہاں ہونیوالے معاشی وسیاسی استحکام کے منصوبے کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔ پاکستانی مسلح افواج نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کو بندوق کی نوک پر رکھ کر واصل جہنم کرنا شروع کردیا ہے۔ کراچی آپریشن کے ذریعے اندرونی بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کا صفایا کرنا شروع کردیا گیا ہے۔ چائنہ، پاکستان اکنامک کاریڈور نہ صرف پاکستان کیلئے بلکہ خطے کیلئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔
امریکہ پاکستان پر مسلسل دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرے (حالانکہ ایسے ٹھکانے کب کے ختم ہو چکے ہیں) اور طالبان کو مذاکرات کی میز تک بھی لیکر آئے اور انہیں مجبور کرے کہ وہ افغان حکومت میں شامل ہوں افغانستان میں امن وامان کا قیام نہ صرف خطے کیلئے بلکہ خود پاکستان کے مفاد میں ہے کیونکہ پاکستان کی تعمیروترقی کے راستے اسی سمت میں جاتے ہیں چین، مشرق وسطیٰ اور سینٹرل ایشیاء تک رسائی کیلئے افغانستان میں امن وامان بنیادی اہمیت کا حامل ہے لیکن بھارت سرکار کی افغانستان میں موجودگی، افغانستان کا پاکستان کے خلاف ایک اڈے کے طور پر استعمال ہونا، اس سمت میں مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بھارت امریکہ کے سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر خطے میں اپنے مفادات کو آگے بڑھا رہا ہے بات اگر یہاں تک ہوتی تو کوئی بات نہیں تھی لیکن اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ پاکستان دشمنی کرنا، معاملات کو خراب کررہا ہے مودی سرکار پاکستان دشمنی میں کھل کھلا کر معاملات کو خراب کررہی ہے، پاک بھارت سرحدوں پر معاملات خراب ہیں پاک بھارت مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ افغان حکومت بھی پاکستان کیخلاف متحرک ہے۔ ایسے پس منظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس اور وزیراعظم پاکستان کا خطاب نہ صرف مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بن سکے گا بلکہ مسئلہ افغانستان کے حل کیلئے پاکستان کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے گا۔ اس خطے کی تعمیروترقی کی تمام راہیں پاکستان سے گزرتی ہیں اور پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کئے بغیر اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

مزیدخبریں