’’افواہیں‘ تاثر اور حقائق‘‘

جنگوں کی تاریخ میں نفسیاتی یلغار بہت بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ یہ بھیس بدل بدل کر ہر مکتبہ ٔ فکر کے لوگوں کے اذہان پر حاوی ہونے کے غیر متناہی سلسلے کا نام ہے۔ یوں توحریف قومیں اس سلسلے کو عمومی واقعات کے پردے میں چھپا کر ہمیشہ جاری رکھتی ہیں مگر اس میں شدت اس وقت لائی جاتی ہے جب کہیں کشت و خون کا دور شروع ہو جائے۔ کیونکہ ایسے حالات میں ڈس انفارمیشن اور باہمی عدم اعتماد کا پیدا کیا جانا آسان ہو جاتا ہے۔ اس صدی کے آغاز سے ہمارا خطہ دنیا کے اکلوتے اور سب سے بڑے میدانِ جنگ میں تبدیل ہو گیااور تمام عالمی خفیہ ایجنسیاں سرگرم عمل ہو گئیں۔خون افغانوں ، عراقیوں اور پاکستانیوں کا بہامگر یہ ایجنسیاں امداد ہمارے ازلی دشمن ہندوستان کی کرتی رہیں ۔ ہماری ایجنسیاں خصوصاً ISI نے یہ چومکھی اس خوبصورتی سے لڑی کہ ڈیڑھ عشرے کی یلغار جھیلنے کے بعد بھی پاکستان پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور بااعتماد بن کر دنیا کے سامنے کھڑا ہے۔ اس جنگ کے آفٹر شاکس کے طور پر ہمیں اپنی کامیابیوں سے بد دل کرنے ،اپنی قومی طاقت پر انگلی اٹھوانے اور ہندوستان کو علاقے کا بڑا تسلیم کروانے کی مذموم کوشش ابھی تک جاری ہے۔ مضمون تو بہت وسیع ہے مگر چند ایک پہلوئوں پر اپنا نقطہ نظر پیش کررہا ہوں۔
1۔ہندوستان کی خفیہ ایجنسی’’ را‘‘ کے متعلق یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس کے کارندے ہر جگہ ہماری صفوں میں موجود ہیں جس کی بنیاد انڈیا کی طرف سے اپنی ایجنسی کی مارکٹنگ اور ہماری بے احتیاطی ہے۔ اگرچہ ہندوستان میں بھی ISI کو بدنام کرنے کی کوشش میں خود انہوں نے اپنے لوگوں کے دلوں پر ہماری ایجنسی کی دھاک بٹھا رکھی ہے۔ بہرحال ـــ’’را‘‘کی حقیقت یہ ہے کہ آج تک وہ کسی جگہ بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ ہندوستان میںکوئی تین درجن علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں’’ را ‘‘کچھ نہیں کر سکتی۔ سری لنکا میں ناکام، کشمیر میں ناکام، افغانستان اور ہمارے بلوچستان سے بستر گول۔ غرض سوائے تخریب کاری کی چھوٹی چھوٹی وارداتوں کے، اس ایجنسی میں کوئی صلاحیت ہی نہیں نظر آئی کہ یہ کوئی بڑا کام کر سکے۔ وگرنہ جتنی سپورٹ انہیں افغانستان میں ملی تھی یہ پورے خطے کو جکڑ سکتی تھی۔ مستقبل میں اِکا دُکا بھٹکنے والوں کو گود لے کر وارداتیں کرواتی رہے گی جسے چوکس رہ کر روکا جا سکتا ہے۔
2۔مودی سرکار کے آنے سے ہندوستان کا رویہ قدرے جارحانہ نظر آیا جسکی جھاگ ہمارے معذرت خواہانہ رویہّ ترک کرنے کے ساتھ ہی بیٹھ گئی ہے۔ اگر ہم جارحانہ دفاع اور جارحانہ ڈپلومیسی کی پالیسی پر کاربند رہے تو وہ جرات نہیں کریں گے ورنہ ہمارے علاقے میں کچھ شورش ضرور برپا کرنا چاہیں گے تاکہ اپنی پے در پے ناکامیوں پر پردہ ڈال سکیں۔ مثلاً افغانستان سے ان کا نکالا جانا، بلوچستان میں مکمل پسپائی، علاقے کی تھانیداری کا خواب ٹوٹنا، کسی بارڈر کو نرم نہ کروا سکنا، خطے میں انکی اقتصادی مہم کی ہوانکل جانا، ہمارے CPEC کا انعقاد اور ان سب کی وجہ سے امریکہ کی Strategic Partnership کا کوئی فائدہ نہ ہونا، وہ حقیقتیں ہیں جو انکی بوکھلاہٹ کا سبب بن سکتی ہیں۔ اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو انڈیا کی Disintegration اور کشمیر کی آزادی زیادہ دور نہیں ۔
3۔عالمی طاقتوں کا اس علاقے میں پاکستان مخالف روئیے کا تاثر عام ہے۔ جوکہ درست نہیں۔ دنیا کا ہر ملک اپنا مفاد دیکھتا ہے اور اب پچھلی صدی کے برعکس کوئی بڑی طاقت کسی اور کی خاطر جنگ میں نہیں کودے گی۔ روس، افغانستان، ایران ،عرب ممالک، امریکہ، برطانیہ اور خود ہندوستان سمجھ چکے ہیںکہ انکو پاکستان سے دوستی میں فائدہ ہے نہ کہ دشمنی میں۔ جتنا پریشر ڈالنا تھا ڈال چکے۔ اگرہم اپنے نصب العین کو دنیا پر واضح کرتے ہوئے آئندہ بھی ہر پریشر کا ثابت قدمی سے مقابلہ کریں گے تو فتح ہماری ہی ہوگی۔
4۔نیشنل ایکشن پلان (NAP) چونکہ بہت سارے عوامل کا احاطہ کئے ہوئے ہے لہٰذا اس میں شکوک و شبہات، افواہوں اور بددلی پھیلانے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ وہی سیاستدان جنہوں سے اسے منظور کیا عجیب منتشر سے نظر آتے ہیں ۔ جب آپریشن کا رُخ دوسری جانب ہو تو مطمئن، اور جب اپنی طرف ہو تو انتقامی کارروائی اور اس پر بڑے بڑے تبّرے۔ ان کی سنگت کچھ بھٹکائے گئے پاکستانی اور کچھ تیز زبان کے ساتھ مردہ ضمیر والے میڈیا کے لوگ کررہے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ کو طوعاً وکرہا ًسب سپورٹ کرتے ہیں مگر دہشت گردی کی فنانسنگ کے لئے یا حسب شوق کی گئی کرپشن کی طرف ہاتھ بڑھیں تو بہت سارے چیخ پڑتے ہیں اور پیاری جمہوریت کو خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
گروہ عِاشقاں پکڑا گیا ہے
جو نامہ بررہے ہیں، ڈر رہے ہیں
نیشنل ایکشن پلان میں فورسز کارول بہت اہم ہے جسے کم وزن کرنے کی کوششیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ ہموطنوں کو صرف تین سوالوں کا جواب تلاش کرنا ہے (1) کیا اپریشن سوائے چند مفاد پرستوں کے، پوری قوم کی دیرینہ خواہش اور اب شدید ضرورت نہ تھی؟ (2) کیا مفاد پرست طاقتور ٹولہ، جنکی باہمی ملی بھگت پر کوئی شک نہیں رہا، ایک دوسرے کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی پوزیشن میں ہیں؟ (3) کیا کوئی حق حلال کی کمائی سے دہشت گردوں کی فنانسنگ کرنا چاہے گا؟ وہ کمائی چھینی تو جاسکتی ہے مگر جرائم کو سہارا دینے کیلئے قطعاً ناکافی ہوتی ہے۔ لہٰذا طاقتوروں اور دہشت گردوں کے درمیان امداد باہمی کا ایک مضبوط رشتہ قائم ہو گیا جس کا ظلم سہنے کے لئے عوام رہ گئے ہیں۔ اس Nexus کو توڑے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا ہے۔
چونکہ آپریشن میںآرمی چیف ہی ہر کام کرتے نظر آتے ہیں لہٰذا یہ تاثر پھیلایا جارہا ہے کہ اصل حکمرانی ان کے پاس ہے اور نواز شریف صاحب فقط ایک مہرہ رہ گئے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔ اس افواہ کا مقصد ایک تو آرمی چیف کے قد کاٹھ کو روکنا اور دوسرا بوقت ضرورت سیاستدانوں کو بیل آئوٹ کرنے کی راہ ہموار کرنا ہو سکتا ہے یعنی ’’ نظریہ مجبور جمہوریت‘‘ کا پرچار ،جو کسی طرح بھی قوم کے لئے اچھا نہیں ہے۔ میں قارئین کو اسے ایک مثبت زاویے سے دیکھنے کی دعوت دیتا ہوں۔ قومی سطح پر تمام سیاستدانوں نے آپریشن کو لانچ کرنے کیلئے نواز شریف صاحب کو Mandate دیا۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بہترین ٹیم ورک کے ذریعے کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں جہاں اور جب وزیر اعظم چاہتے ہیں آرمی چیف حاضر ہیں اور احکام کی تعمیل ہورہی ہے۔ چونکہ آرمی چیف شب و روز قومی خدمت میں ہر جگہ نظر آتے ہیں اور آجکل لوگ سننے کی بجائے دیکھنے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں لہٰذا ان سے عوام کا ایک عجیب انسیّت کا رشتہ قائم ہو گیا ہے۔ انہیں بزرگ اپنا بیٹا، بچے اور نوجوان اپنا باپ، مرد اپنا شفیق بھائی اور خواتین اپنی چادر کے رکھوالے کے طور پر پہچانتے ہیں۔ اللہ انہیں سلامتی اور کامیابیاں نصیب فرمائے۔ کیا موجودہ حالات میں فوج کا کردار جمہوریت کو بہترین نذرانہ نہیں؟
ایک اور تاثر یہ پھیلایا جارہا ہے کہ فلاں کے خلاف ایکشن ہوگا تو آسمان پھٹ جائے گا اور فلاں کے خلاف ہوا تو زمین ہل جائے گی وغیرہ۔ یہ سب گیدڑ بھبکیاں ہیں۔ اسوقت سوائے مفادات سمیٹنے والوں کے، کوئی بھی کرپٹ مافیا کے ساتھ نہیں۔ جیسے جیسے انصاف ہوتا نظرآئے گا عوام میں اور جان پڑتی جائے گی۔ پھر ایک Public Suomoto کے ذریعے وطن عزیز ہمیشہ کیلئے اس دلدل سے نکل جائگا۔
مندرجہ بالا تجزیے کے تناظر میں مَیں محترم نواز شریف صاحب اور جنرل راحیل شریف صاحب کی خدمت میں عرض کرونگا کہ قوم کو مجتمع کرنے کیلئے عوام جتنی آج تیار ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ بلوچستان کی طرح فاٹا کو بھی صوبائی درجہ دے کر قومی دھارے میںشامل کیا جائے۔ نیشنل ایکشن پلان میں کسی جگہ بھی مصلحت کوشی نہ کی جائے۔ ہندوستان کے ساتھ چوکس رہ پر ورکنگ ریلیشن رکھے جائیں۔ بھٹکے اور بکے ہوئے پاکستانیوں کے قول و فعل پر پابندی لگائی جائے۔ پھر انقلابی ریفارمز،جوکہ ناگزیر ہو چکے ہیں ،عوامی ڈیبیٹ کے بعد ان پر عملدرآمد کروایا جائے چاہے اس کیلئے ایمرجنسی ہی کیوں نہ نافذ کرنی پڑے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...