جمعرات کو پارلیمنٹ ہائوس میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی غیر معمولی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں،وہ خاص طور پارلیمنٹ ہائوس آئے اور چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی سے ملاقات کی۔بعد ازاں انہوں نے اپنے چیمبر میں صحافیوں کے ساتھ محفل سجائی اس محفل میں جہاں انہوں نے ملکی سیاسی صور تحال پر کھل کر اظہار خیال کیا وہاں انہوں نے پارلیمنٹ کو لاحق خطرات کے بارے میں سوالات کے جواب دئیے ایسا دکھائی دیتا ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ’’ سیاسی جنگ‘‘ کے باوجود باہم رابطے ہیں اور وہ غیر اعلانیہ طور وزیراعظم کی پشت پر کھڑے ہیں وہ نواز شریف کی حمایت کرنے کا اعتراف نہیں کرتے لیکن وہ جمہوری سیٹ نظام کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا ہے اگر پارلیمنٹ کو کوئی خطرہ لا حق ہوا تو نواز شریف کے ساتھ نہیں پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اسے حسن اتفاق کہیں یا کچھ اور عوامی نیشنل پارٹی کا اعلیٰ سطح کا مشاور تی اجلاس بھی اسلام آباد میں ہوا جس میں اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کھل کر کہا کہ ’’پارلیمنٹ کی موجودگی میں وزیراعظم کو ہٹائے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم کی جانب سے ان کو ہٹائے جانے کے خدشات بعد جمہوری قوتوں کا پارلیمنٹ ہائوس کی طرف رخ کرنے سے ان کے حوصلے بڑھ گئے ہیں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی پیپلز پارٹی کے چیدہ چیدہ رہنمائوں کو ہفتہ کو دوبئی طلب کر لیا ہے دوبئی سے جمہوریت کے حق میں زوردار بیان جاری ہونے کا امکان ہے سید خورشید شاہ دوبئی میں اکٹھ کو اجلاس تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ان کا کہنا ہم آصف علی زرداری سے ملاقات کے لئے دوبئی جارہے ہیں ’’ پارلیمنٹ پر سیاہ بادلوں ‘‘نے‘‘جمہوری قوتوں کا ایک بار پھر ایک ’’صفٖحہ‘‘ پر اکٹھے ہونے پر مجبور کر دیا ہے ایم کیو ایم کے استعفوں کا معاملہ ابی تک التوا میں پڑا ہے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی آج ایم کیو ایم کے استعفوں کے بارے میں تاریخی رولنگ دیں گے ان کی رولنگ جمہوری نظام کے استحکام کا باعث بنے گی۔سرتاج عزیز نے پالیسی بیان دیا ہے جس میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھارتی مداخلت کے ثبوتوں پر مبنی ڈوزیئرپیش کئے جائیں گے‘ بھارت کے ریاستی عناصر ہمارے ملک میں مداخلت کر رہے ہیں‘ اوفا اعلامیہ سے کشمیر کا لفظ خارج نہیں کیا گیا ‘ اگر بھارت کو مشیران قومی سلامتی و خارجہ سطح کے مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے تو اب اسے آگے بڑھنا ہو گا ‘ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو تقریر کریں گے اس سے پاکستان کی پوزیشن مزید مضبوط ہو گی۔ قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے حسب سابق مشیر خارجہ کی تقریر پر تنقیدکی اور اسے دفتر خارجہ کے کسی افسر کی لکھی ہوئی روایتی تقریر قرار دیا جس میں افغانستان سے تعلقات کی خرابی اور تجارتی معاملات ختم ہونے پر کوئی بات نہیں کی گئی اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کے الزامات کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا بعد ازاں اپوزیشن کے ارکان علامتی واک آئوٹ کر دیا جنہیں مسلم لیگ (ن) لیگ کے سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا منا کر واپس ایوان میں لے آئے۔ جمعرات کو ایک بار پھر ایوان میں ’’میٹرو بس پراجیکٹ‘‘ کی باز گشت سنی گئی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں میٹرو بس پراجیکٹ کے راستے کی تعمیر پر سی ڈی اے کی طرف سے کسی قسم کے اخراجات نہیں کئے گئے‘ وفاق اور پنجاب نے میٹرو بس کے راستوں کی تعمیراتی لاگت مل کر ادا کی ہے ‘ میٹرو بس غریبوں کی فلاح و بہبود کا منصوبہ ہے اس کی مخالفت نہ کی جائے۔ اگر کسی رکن کو میٹرو اچھی نہیں لگتی تو ہم کیا کر سکتے ہیں‘ جہاں امیر رہتے ہیں وہاں اربوں روپے سے پارک اور سڑکیں بنیں وہ جائز ہیں تو غریبوں کے لئے میٹرو بس کے منصوبے کو کیسے ناجائز قرار دیا جاسکتا تھاچیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے نندی پور پاور پراجیکٹ کے حوالے سے دو تحاریک التواء اور ایک توجہ مبذول نوٹس بحث کے لئے منظور کرلیا ہے ں۔ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر تاج حیدر کے عوامی اہمیت کے معاملہ کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک الگ پروگرام ہے جو چاروں صوبوں میں وفاق کے زیر انتظام کام کر رہا ہے۔ کسی اور صوبے کی امداد کو اس میں شامل کرکے تقسیم نہیں کیا جاسکتا جس میں تکنیکی مشکلات درپیش آئیں گی جس پر چیئرمین سینٹ نے صوبائی حکومت کو ایڈوائس دی کہ وہ مشترکہ مفادات کونسل میں اس معاملے کو اٹھائے ۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اس میں بلوچستان کو شامل نہیں کیا گیا۔ ایوان بالا کا اجلاس جمعہ کی صبح دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔