اردو زبان کے حوالے سے جسٹس جواد خواجہ کا فیصلہ تاریخی بلکہ تاریخ ساز ہے مگر نوائے وقت نے اپنے اداریے میں انگریزی زبان کے حوالے سے محتاط رویے کی ضرورت پر غور کرنے کی تجویز دی۔ اردو قومی زبان ہے اور عالمی زبان بھی ہے مگر انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ اس سے انکار نہیں مگر ایک لازمی مضمون کے طور پر سارے طالب علموں پر اسے مسلط کرنا مناسب نہیں ہے۔ طالب علموں کی اکثریت اس مضمون میں فیل ہوتی ہے جبکہ دوسرے مضامین میں ان کی کامیابی بہت اعلیٰ ہوتی ہے۔ دفتری زبان اردو ہو مگر جب تک اسے تعلیمی زبان نہیں بنایا جائے گا تب تک بات نہیں بنے گی۔ مگر اس کے ساتھ ایک سینئر اور معروف وکیل کا لائسنس معطل کر دیا گیا ہے جس سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہونگی۔
اردو زبان کے حوالے سے چیف جسٹس جواد خواجہ کا فیصلہ بڑا انقلابی ہے۔ انہوں نے اردو زبان میں فیصلے لکھے۔ چیف جسٹس کے لیے اردو زبان میں حلف لیا جبکہ وہ وکلاء کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو انگریزی بولنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ بیورو کریسی کے لیے ایک چیلنج ہے۔ وہ اردو زبان کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ اب بھی کئی خطرات کا اندیشہ افسران اعلیٰ سے ہے مگر عدلیہ کے اس فیصلے کے سامنے انہیں آسانی سے اپنے مقاصد میں کامیابی ممکن نہیں ہے۔
علی ظفر کے لئے فیصلہ بہت سے شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ 17 ستمبر کو نوائے وقت میں شائع ہونے والے محمد صلاح الدین خان کے مضمون میں بھی بے چینی کا اظہار کیا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس سے وکلاء دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئے ہیں مگر وکلاء کی ایک واضح اکثریت نے اس فیصلے کو پسند نہیں کیا۔ خود سابق چیف جسٹس جواد خواجہ نے کہا ہے کہ نظام عدل کی تباہی میں ججوں وکیلوں حکمرانوں اور افسروں کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے ججوں اور عدلیہ پر بھی تنقید کی ہے۔ عدلیہ کی تاریخ میں حوصلہ افزا فیصلوں کی کمی شدت سے محسوس کی گئی ہے۔ پہلے چیف جسٹس منیر صاحب نے حکومت اور اسمبلی کے توڑنے کے مقدمے میں فیصلہ گورنر جنرل غلام محمد کے حق میں دے کے نظریہ ضرورت کی ابتدا رکھی۔ اور پھر نظریہ ضرورت نظریہ پاکستان کی صورت میں ہمارے فیصلوں کی علامت بن گیا۔
نوائے وقت نے نظریہ ضرورت کی ہمیشہ مخالفت کی۔ توہین عدالت کا معاملہ اتنا سنجیدہ اب نہیں رہا مگر اب تو توہین عدالت کا سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ ممتاز ایڈووکیٹ منصورالرحمن آفریدی نے توہین عدالت کے معاملے میں دوٹوک رائے دیتے ہوئے کہا کہ توہین کے قوانین خاصے متنازع ہو گئے ہیں۔ اس حوالے سے عدلیہ کو بھی محتاط رویہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ شاید یہ بھی نظریہ ضرورت ہی ہے۔ کمرہ عدالت میں رسمی طور پر صرف معافی مانگنے کی روایت عام ہوئی اور معاملہ ختم کر دیا گیا مگر معافی کی عظمت تو یہ ہے کہ معافی نہ مانگی جائے اور معاف کر دیا جائے۔
بہت سینئر نامور اور بہت محترم ایڈووکیٹ ایس ایم ظفر اس معاملے میں خاموش تھے کہ یہ ان کے بیٹے کا مقدمہ ہے مگر ان کی افسردگی بہرحال قابل ذکر ہے۔ انہوں نے بڑے بڑے مقدمات میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ محسن پاکستان ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے عالمی مقدمے میں کامیابی سے پاکستان کا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے۔
توہین عدالت کا نوٹس ملنے پر علی ظفر نے ان سے مشورہ کیا اور کہا کہ کچھ دوست معافی تلافی کرنے پر زور دے رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کا دل کہتا ہے کہ آپ حق پر نہیں ہو تو معافی مانگ لو اور انکسایر اختیار کرو اگر تم سمجھتے ہو کہ تم ٹھیک ہو تم نے کوئی غلطی نہیں کی تو ڈٹ جائو اور جو بھی فیصلہ آتا ہے اس کے لیے تیار ہو جائو اور کوئی فکر نہ کرو۔ یہ پیغام اپنے بیٹے کے لیے ہی نہیں ہے سب بیٹوں اور لوگوں کے لیے ہے کہ وہ غلط نہیں ہیں تو ڈٹ جائیں اور ہر طرح کے نتائج کے لیے تیار رہیں۔
جج بھی انسان ہوتے ہیں ان میں سے بیشتر وکیل ہوتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس جواد خواجہ بھی وکیل تھے اور ان کا دفتر اور سینئر وکیل سیاستدان حامد خان کا دفتر ایک ہی تھا۔ یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ پاکستان بار کونسل کے آئندہ الیکشن میں علی ظفر حامد خان کے امیدوار کے مدمقابل ہیں مگر اس فیصلے کے باوجود علی ظفر سپریم کورٹ کے رول پر ہیں۔ اس لیے انہیں الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جا سکتا۔
ایک وکیل کا لائسنس کوئی جج معطل نہیں کر سکتا۔ وہ سزا سنا سکتا ہے۔ وہ سزا بھی قانون کے تحت مقرر ہے۔ لائسنس کی معطلی کوئی سزا نہیں۔ علی ظفر نے جسٹس صاحب کے لیے عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ یہ مسائل کاحق ہے اور بالعموم جج صاحبان اس کو قبول کرتے ہیں اور کیس سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں مگر علی ظفر کو توہین عدالت کا نوٹس بھیج کر مقدمے کی سماعت شروع کر دی گئی۔ جب جسٹس جواد خواجہ چیف جسٹس بن گئے تو انہوںنے اس کیس کو جلدی جلدی نمٹانے کی کوشش کی۔ جمعے کو یہ کیس سنا گیا اور علی ظفر کے وکیل حفیظ پیرزادہ کی بیماری کے باوجود ریلیف نہ دیا گیا۔ پیرزادہ فوت ہو گئے تو علی ظفر نے عاصمہ جہانگیر کو وکیل کر لیا۔ وہ سماعت کے دن بیرون ملک میں تھیں مگر مقدمے کے لیے تاریخ نہ دی گئی اور علی ظفر کو کہا کہ وہ خود دلائل دیں۔ علی ظفر نے 8 گھنٹے تک دلائل دیے۔ اس دوران نماز جمعہ اور کھانے کے لئے کوئی وقفہ نہ کیا گیا۔ اور فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک دن پہلے فیصلہ سنا دیا گیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا دوسرے ججوں پر اعتبار نہ تھا۔
جسٹس جواد خواجہ اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ان کی عزت اور احترام مقدمہ ہے انہیں متنازع نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جاتے جاتے وہ ہمدردانہ تاثر چھوڑ کر جاتے۔ انصاف کی فراہمی کے لیے جج اور وکیل دونوں کی یکجہتی بڑی ضروری ہے۔
ایک عظیم جج کو معاملات سے صرف نظر کرتے ہوئے کیس کے لیے اگلی تاریخ دے کر آسانی سے اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا۔ اپنے ساتھی ججوں پر بھروسہ کرنا چاہیے تھا۔ ان کی الوداعی تقریب میں وکیلوں کی اکثریت نے شرکت نہ کی۔ اس سے دکھ ہوا۔
نوائے وقت میں شائع ہونے والے محمد صلاح الدین کے مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اعظم تارڑ نے بڑے دکھ سے بات کی کہ سابق چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل علی ظفر کے خلاف ذاتی عناد پر فیصلہ دیا ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار نے اس فیصلے کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ ججوں کا احترام مقدم ہے مگر وکلاء کی توہین بھی گوارا نہیں ہے۔ سینئر خاتون وکیل پاکستان بار کونسل کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ علی ظفر نے کسی جج اور عدالتی عملے کے کسی رکن سے کبھی بدتمیزی نہیں کی۔ اس کے باوجود ان کا لائسنس معطل کر دیا گیا۔ عاصمہ جہانگیر کے بقول اگر ججز تقرری کا کیس تین سال تک لٹکایا جا سکتا ہے تو علی ظفر کے خلاف کیس ملتوی کیوں نہ کیا جا سکتا تھا۔ کسی وکیل کا لائسنس بار کونسل کی ڈسپلنسری کمیٹی معطل کر سکتی ہے۔ اس کمیٹی کا سربراہ بھی سپریم کورٹ کا جج ہوتا ہے۔ امید ہے کہ اب بھی اس معاملے کو بڑھنے نہیں دیا جائے گا اور باہمی کوششوں سے کوئی نہ کوئی حل نکال لیا جائے گا۔
اردو زبان کی بحالی، سینئر وکیل کی معطلی
Sep 18, 2015