لندن (بی بی سی)برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کے سربراہ اینڈریو پارکر کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے باعث شدت پسند حکام کی نگرانی سے بچ کر رابطے کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔وزرا ایک ایسا قانون تیار کر رہے ہیں جس کے ذریعے الیکٹرانک نگرانی کی جا سکے گی۔
خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے پہلی بار انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خفیہ ایجنسیاں اہم معلومات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کمپنیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کسی قسم کے ممکنہ خطرے کے حوالے سے حکام کو آگاہ کریں۔تاہم انہوں نے کہا کہ ایم آئی فائیو نے عوام کی زندگیوں پر نظر نہیں رکھی ہوئی۔وزرا ایک ایسا قانون تیار کر رہے ہیں جس کے ذریعے الیکٹرانک نگرانی کی جا سکے گی۔ تاہم اینڈریو پارکر کا کہنا ہے کہ اس بات کا فیصلہ پارلیمان کرے گی کہ اس قانون میں کیا شامل ہونا چاہیے۔’یہ مکمل طور پر وزرا پر منحصر ہے کہ وہ کیا تجویز کرتے ہیں اور پارلیمان کیا فیصلہ کرتی ہے۔ ہم پارلیمان کے فیصلے کے مطابق کام کریں گے اور یہی ہم کرتے ہیں۔‘خفیہ ادارے کا کہنا ہے کہ ڈیٹا انکرپشن ایسی صورت حال پیدا کر رہی ہے جہاں پولیس اور خفیہ ادارے قانونی وارنٹ کے ذریعے مشتبہ شدت پسندوں کی مواصلات حاصل نہیں کر سکتے۔‘انہوں نے کہا یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ ’یہ کسی کے حق میں نہیں ہے کہ دہشت گرد منصوبہ بندی کر سکیں اور حکام کی پہنچ سے دور رابطے کریں۔‘جب ان سے پوچھا گیا کہ لی رگبی کے قاتل خفیہ اداروں کی نظر میں تھے تو ان کا کہنا تھا: ’اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ہمیں سب معلوم ہو گا اور ہم اسے روک لیں گے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔‘انہوں نے مزید کہا: ’اگر ہم اپنے کام کریں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کون ہیں جو ملک کے لئے خطرہ ہیں لیکن ہم ان کی ہمہ وقت نگرانی نہیں کر سکتے۔‘اینڈریو پارکر نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ وسائل کہاں استعمال کیے جائیں اور اس جگہ استعمال کیے جائیں جہاں سب سے زیادہ خطرہ ہے۔انہوں نے اس تجویز کو مسترد کیا کہ سکیورٹی سروسز کی حکمت عملی انتہا پسندی میں اضافے کی سبب ہے۔انہوں نے ان خدشات کو رد کیا کہ شام سے ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزینوں کے ساتھ ساتھ شدت پسند بھی یورپ آ رہے ہیں۔