ماں کے ہاتھوں کی پکی ہوئی روٹی اور دوستانہ اپنائیت

Sep 18, 2016

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

ایم این اے بہت شاندار باوقار اور بھرپور خاتون عارفہ خالد کی بیٹی ماہا امریکہ میں رہتی ہیں۔ انہوں نے اپنی ماں عارفہ کو بقر عید مبارک فون پر کہی اور کہا کہ آپ کتنی خوش قسمت ہو کہ اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہیں اور بقر عید بھی ماں کے ساتھ منائی ہے۔ یہ بات عارفہ خالد نے کہی کہ پچھلے نو سال سے میں نے اپنے بچوں کے ساتھ عید نہیں منائی۔ مختلف مصروفیات ہیں۔ بچے باہر چلے گئے۔ میں بھی باہر بہت رہی ہوں۔ مگر اب میرا دل چاہتا ہے کہ میں وطن میں رہوں جبکہ وطن میں قیام کے دوران بہت بیزاریاں بھی ہیں اور لوگوں کے رویے اور ردعمل نے بھی بہت اکیلا کر دیا ہے۔ دنیا میں ہمارے وطن پاکستان کے لیے لوگوں کے خیالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ اپنے لوگ بھی پاکستان کے لیے محبت کا اظہار نہیں کرتے۔ وطن سے باہر وطن کے لیے جھوٹ بولنا شاید آسان ہو مگر وطن کے اندر سچ یہ ہے کہ یہاں جھوٹ کی کارروائی بہت ہے۔ جھوٹ ایک ایسا لفظ ہے جس میں وہ سب کچھ آ گیا ہے جو کوئی بھی کچھ کہنا چاہتا ہے۔
عارفہ نے بتایا کہ مجھے یہاں رہنا اس لیے قبول نہیں کہ میں ایم پی اے تھی اور ایم این اے ہوں۔ سیاست میں جو گڑ بڑ ہے وہ ہر کہیں ہے۔ پھر میری طرف عارفہ نے دیکھا اور کہا کہ آپ کہتے ہو زندگی درندگی اور شرمندگی میں پھنس گئی ہے۔ اور ہم کہیں بھاگ کے جا بھی نہیں سکتے۔
مگر آپ نے یہ بھی کہا ہے اور میری ماں کو یہ بات پسند آئی ہے۔ فلسطین کے حریت پسند شاعر محمود درویش نے کہا کہ وطن اپنی ماں کے ہاتھوں سے پکی ہوئی روٹی کھانے کا نام ہے۔ میں نے کہا کہ آپ یہاں اکیلی صرف اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہیں تو وطن آپ کے لیے ایک گھر میں سمٹ آیا ہے۔ عارفہ خالد کو میرا یہ جملہ بھی یاد تھا ’’عورت جہاں کھڑی ہو جائے وہاں گھر بن جاتا ہے۔‘‘ تو پھر چاروں طرف ایک بے گھری کا سماں کیوں ہے؟ میں نے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے اور شاید بدقسمتی اب مستقل ہو گئی ہے۔
ہم محبت کرنا بھول گئے ہیں۔ ہمیں محبت کے اصل معانی بھی یاد نہیں رہے ہیں۔ عزت کے بغیر محبت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ خدا کی قسم ہمارے لیے اپنوں اور اجنبی لوگوں سے بھی یہ کہنا آسان ہو جائے کہ مجھے تم سے محبت ہے تو یہ دنیا محبت کرنے والے اور اچھے دل والے لوگوں سے بھر جائے۔ محبت کرنا تو دور کی بات ہے ہمیں تو نفرت کرنا بھی نہیں آتا۔ ہمیں زندگی کرنا اچھی طرح جینا بھی نہیں آتا۔ ہم کچھ وقت گزار کر کہیں چلے جاتے ہیں اور پھر واپس نہیں آتے۔ اتنے مختصر سے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا۔
محبت بڑی ہے مگر محبت کا اظہار اس سے بھی بڑا ہے۔ میرے پاس ایک سٹوڈنٹ آئی۔ بچیاں اپنے مسائل اور باتیں مجھ سے کر لیتی تھیں۔ کہنے لگی میں شادی کر رہی ہوں۔ آپ کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ کوئی بات کریں۔ میں نے کہا کہ بیٹا جس سے تمہاری شادی ہو اس سے محبت کرنا۔ وہ بہت شوخ تھی کہنے لگی کہ محبت نہ ہو تو کیا کریں۔ میں نے کہا کہ اظہار محبت ہی کرنا۔ اس نے کہا یہ جھوٹ ہے۔ میں نے کہا محبت جھوٹ نہیں ہوتی۔ محبت کا اظہار بھی جھوٹ نہیں ہوتا۔ اس طرح جھوٹ بھی سچ بن جاتا ہے۔ وہ کچھ مہینوں کے بعد مجھ سے ملی تو بہت خوش تھی۔ میں تو جھوٹ موٹ اس کے ساتھ محبت کا ڈھونگ رچاتی رہی وہ تو سچ مچ مجھ سے پیار کرنے لگ گیا ہے۔
منیر نیازی شاعری کا خان اعظم ہے اور میرے قبیلے کا سردار ہے۔ اس نے کہا
مجھے تم سے محبت ہے
یہی اک بات کہنے میں
لگے بارہ برس مجھ کو
جس سے یہ کہا گیا تھا اس باوقار شاندار اور سادے نقش و نگار سے بھری ہوئی بہت سوہنی خاتون سے میں نے بات کی کہا تو اس نے یہ بارہ برس کے پہلے لمحے سے آخری لمحے تک مجھے معلوم رہا اور اعتبار رہا کہ شیر خان میرے ساتھ محبت کرتا ہے۔ محبت ایک نامعلوم اور نظر نہ آنے والا انوکھا اور سہانا جذبہ ہے جس کی طرف کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ رابطہ اور واسطہ اس کے دو آسان اور آسودہ طریقے ہیں۔
میرے گھر میں کچھ دوست میری سالگرہ کے لئے آئے تھے۔ میں خاموش بیٹھا رہا۔ میں بوڑھا ہو رہا ہوں اور مجھے اپنی سالگرہ کا پتہ نہیں ہے۔ میں نے زندگی میں اپنا یہ دن کبھی نہیں منایا۔ البتہ اپنے پوتے مصطفی پوتی نعتیہ نواسے فیصل نواسی تعبیر کی سالگرہ پورے ذوق و شوق سے مناتا ہوں۔ انہوں نے باقاعدہ ایک تقریب کر ڈالی جس میں نعیمہ اور ذوالقرنین نے بھی شرکت کی۔ ہمارے گھر میں ایک اچھی بچی زینب ہے۔ اس نے دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر یہ ہنگامہ کیا۔
برادرم افتخار مجاز اور عبدالستار عاصم نے میرے گھر پر قبضہ کر کے ایک ہنگامہ کیا۔ حاجی محمد لطیف کھوکھر پروفیسر شفیق اور مقصود چغتائی‘ ضیاالحسن نقشبندی تو باقاعدہ کیک لے کے آئے۔ شیخ غلام حیدر کویت میں رہتے ہیں۔ ان کے والہانہ پن کے بانکپن سے لگتا تھا کہ جیسے کویت سے سیدھے یہاں اسی تقریب کے لئے آئے ہیں۔ تقریب کی صدارت خود بخود برادرم افتخار مجاز کی جھولی میں جا گری۔ وہ بھی بے تکلفی سے دوستانہ آرزومندی سے تقریب کو سنبھالتے ہیں۔ ایسا کردار ادا کرتے ہیں اور خوبصورت روانی اور فراوانی سے گفتگو کرتے ہیں کہ لطف آ جاتا ہے۔
میں بڑوں اور بوڑھوں کی سالگرہ کے حق میں نہیں ہوں۔ میں نے زندگی بھر سالگرہ نہیں منائی۔ یہ چھوٹوں کا حق ہے۔ ان کے ساتھ معاملات کو انجوائے کرنا چاہیے۔ مجھے اپنا یہ جملہ بھولتا نہیں ہے کہ میں نے بچوں سے محبت کی اور وہ بڑے ہو گئے۔ میں نے بڑوں سے محبت کی اور وہ فوت ہو گئے۔

مزیدخبریں