”ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو“

Sep 18, 2016

بریگیڈیئر (ر) محمود الحسن سید

پانی قدرت کا انمول تحفہ اور ایک عظیم نعمتِ عظمیٰ ہے۔ جس کی قدرو قیمت کا اندازہ صرف اُسی کو ہوتا ہے جو اس سے محروم ہو جائے یا اس کی کمی کا شکار ہو۔ قرآن پا ک میں متعدد بار پانی کی اہمیت کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً ”پہلے میرا عرش پانی پر تھا” اور ایک اور جگہ فرمان الٰہی ہے ” ہم نے ہر چیز پانی سے پیدا کی “ قارئین ہمارے ملک کے جنوبی علاقے تھر میں آئے روز قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی وجہ بھی وہاں پانی کی کم یابی اور نایابی ہے جس کی وجہ سے وہاں پر بچوں اور دیگر افراد کی اموات روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔
New York Times کی ایک رپورٹ میں جو پاکستان کے بارے میں ہے اُس کا مطلب کچھ اس طرح ہے کہ ”اب سے 9سال بعد پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہو گا۔ یہ ملک جس کی معیشت بجلی کی کمی اور ایندھن کی کمیابی کا شکار ہے جلد ہی ایک نئی مصیبت سے دوچار ہو جائے گا اور وہ ہے پانی کی کمی“ اس رپورٹ کی حقیقت کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ آزادی کے وقت 1947 میں ملک کے ہر فرد کے لےے500 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا۔کہا جاتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی پر ہوگی، ہمارے ملک میں پانی کی کمی کی دو بڑی وجوہات ہیں:
اول:عالمی سطح پر موسم کی تبدیلی
دوم:ملک میں دستیاب پانی کے حوالے سے ناقص حکمت عملی، جہاں تک موسم کی تبدیلی کا تعلق ہے تو اس بارے میں تو کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن پانی کا استعمال مکمل طور پر ہمارے اختیار میں ہے۔
پانی کی قلت ملک کے لےے اتنی ہی خطر ناک ہے جتنی کہ دہشت گردی اس سلسلے میں
Pakistan Water Discourse Attitude on Water Management Practices کے مطابق ” ہمارے ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لےے تو نیشنل ایکشن پلین(NAP) موجود ہے لیکن پانی کی قلت کے تدارک کے لےے کوئی National Water Policy نہیں ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت کا انحصار پانی پر ہے نیز ہمیں اپنی آبادی میں اضافے کے پیش نظر اپنی غذائی پیداوار میں 15 فیصد اضافہ کرنالازمی ہے اور اس کے لےے پانی کی پیداوار میں 50فی صد اضافہ بھی ناگزیر ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہماری کوئی ”قومی آبی پالیسی “ نہیں ہے۔ملک کی آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح کے نتیجے میں اگلے 9سالوں میں ہماری آبادی 250ملین ہو جائے گی جبکہ 9سال بعد ہر ملکی شہری کے لےے صرف 700 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہو گا۔ باالفاظ دیگر 9سال بعد ملک میں پانی کی شدید قلت ہو جائے گی اور یہیں ہمیںقحط سالی کا سامنا ہو گا۔ لیکن ہماری کوئی” قومی آبی پالیسی“ نہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کا کوئی حل ہے؟ بالکل اس کا تدارک ممکن ہے
اول:پانی کے ذخائر کی تعمیر
دوم:دیہی اور شہری علاقوں میں گھریلو استعمال کے پانی کی پالیسی
سوم:استعمال کئے جانے والے پانی کی قیمت کا تعین
40سال سے زائد عرصہ قبل ملک میں پہلا آبی ذخیرہ وارسک ڈیم تعمیر ہوا۔ نیز 1967 ءمیں کثیر الفوائد کا حامل منگلا ڈیم بنایا گیا جو کہ دنیا میں ساتویں درجے پرہے۔ اس کے علاوہ THAR CANAL اور LEFT & RIGHT BANK OUT FALL DRAW PROJECTS بھی تعمیر کئے گئے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اس قابلیت کے حامل ہیں مگر جس کی کمی ہے وہ سیاسی بصیرت اور عزمِ مصمم ہے۔
ان حقائق کی روشنی کے ضمن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر پانی کی قلت دہشت گردی کی طرح خطرناک اور نقصان دہ ہے تو پھر اس سلسلے میں ضروری اقدامات بروئے کار کیوں نہیں لائے گئے۔ اس کی دو بڑی وجوہات جو سامنے آتی ہیں وہ سیاسی مطاقبت رائے (CONSENSUS) اور دوسری سرمائے کی عدم دستیابی ہیں۔ جہاں تک مالی استطاعت کا تعلق ہے تو یہ دراصل صحےح ترجیحات کا مسئلہ ہے ۔ کیونکہ ہم صرف ایک شہر میں ORANGE TRAIN پر 162 بلین روپے کی خطیر رقم خرچ کررہے ہیں جو صرف ڈھائی لاکھ افراد کے استعمال میں آئے گی۔جبکہ پانی ہر فرد اور جاندار کی بنیادی ضرورت ہے۔
قارئےن! پانی کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے اس کا واضح ثبوت تھر کے علاقے میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہے۔ ملک میں پانی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قلت کسی طرح بھی ملک کو درپیش دہشت گردی کے خطرات سے کم نہیں۔مگر حکمرانوں کو اس کا قطعی کوئی احساس نہیں ہے۔ کالا باغ ڈیم کی افادیت کے بارے میں حقائق کو عوام تک پہنچانے کے جرم میں چیئرمین واپڈا کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ اگر اس ڈیم کے بارے میں سیاسی ہم آہنگی ممکن نہیں تو حکومت کو اس کی جگہ غیر متنازع اور چھوٹے چھوٹے آبی ذخائر ترجیحی بنیادوں پر شروع کرنے چاہےے تھے مگر بدقسمتی سے ہماری ترجیحات غیر متوازن اور مکمل طور پر ناقص ہیں۔ صرف وہ منصوبے زیر غور اور زیر تعمیر ہیں جن میں دکھاوے اور شوبازی کا عنصر مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے لیڈرز کو اپنی ترجیحات درست کر کے عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنے کی ہمت اور توفیق عطافرمائے۔ آمینکیونکہ پیارے نبی محترم ﷺ کی یہ حدیث پاک بھی اسی بات کی نشان دہی کرتی ہے :
” جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہو (یعنی خلیفہ ہو یا امیر) تو اللہ تعالیٰ ا س کا مقصد پورا نہیں کرے گا جب تک وہ لوگوں کی ضروریات پوری نہ کرے“
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا

مزیدخبریں