دیکھنا ہے تو دیکھ مجھے عبرتوں کیلئے؟

کبھی آپ کو چین جانے کا موقع ملے تو بیجنگ میں واقع عظیم ہال کے متصل ایک عجائب گھر ضرور دیکھئے گا۔ اس عجائب گھر میں چین کے عظیم لیڈ ر چو این لائی کی ذاتی استعمال کی اشیاءمیں پیوند لگے کو ٹ، پھٹے ہوئے جو توں کو دیکھ کر ہر شخص لمحے بھر کیلئے سوچنے پر مجبور ہو جا تا ہے کہ چین کو عظیم تر بنانے والے شخص نے کس قدر سادہ زندگی گزاری تھی۔ آج چینی قوم جس جگہ کھڑی ہے یہ ان کی محنت اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔ موجو دہ صدی میں پیدا ہونیوالے ایسے ہی عظیم راہنماﺅں نے اپنی ذات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ممالک کو ترقی دی۔ جمہوریت کی بقا کیلئے‘ جنگ لڑنے والے سربراہان جب تک عملی ثبوت پیش نہیں کرتے کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہاں دو صدور کا تذکرہ کرنا مناسب ہوگا۔ یوراگوئے کے صدر خوسے مونیکا کا شمار غریب صدور میں ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی آمدنی کا 90% غریبوں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ اپنی حکومت کی پیش کردہ مراعات لینے کو وہ عوام کی حق تلفی سمجھتے ہیں حکومت سے جو تنخواہ ملتی ہے اس میں گزارہ کرتے ہیں اور کچھ کھیتی باڑی کر کے یا پھر پھول اگا کر گزر بسر کر رہے ہیں۔ اس محنت میں ان کی اہلیہ ہمہ وقت انکا ساتھ دیتی ہے۔ کپڑے دھونے سے لیکر کنویں سے پانی لانا بھی انکی روٹین میں شامل ہے۔ اپنے ہاتھوں کی کمائی سے انہوں نے خیرات میں بارہ ہزار امریکی ڈالر غریبوں میں تقسیم کےے ہیں۔ انکے اثاتوں میں 1987 میں خریدا گیا ایک عدد ٹریکٹر اور ایک چھوٹا سا گھر ہے۔ جدوجہد اور ملک کی آزادی کیلئے لڑی جانیوالے جنگ میں ان پر بارہا مخالف حریفوں نے قاتلانہ حملے کئے اور آپ کو ان حملوں میں مختلف وقت میں چار دفعہ گولی کا نشانہ بننا پڑا۔ علاوہ ازیں چودہ سال جیل میں بھی صعوبتیں اٹھانی پڑیں۔ انہیں غریب صدر کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے جس کے جواب میں انہوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ لوگوں کی حق تلفی سے بنائے گئے محل میں کبھی چین نصیب نہیں ہوتا۔ 1931ءمیں پیدا ہونےوالے بھارت کے پسماندہ قصبہ رام شورم کا باسی اخبار فروشی سے صدر کے عہدہ تک کیسے جاپہنچا وہ نہ صرف ہندوستان کا صدر بنا بلکہ اس نے ہندوستان کو ایٹمی ترقی کے علا وہ جدید قسم کے میزائل بنا کر جنوبی ایشیاءمیںبھارت کو بالادستی دلانے میں بہت اہم رول ادا کیا۔ اسکے والدین گواتنے اسودہ حال تو نہ تھے مگر پھر بھی انکے گھر سے غریبوں کیلئے کھانا پکا کر تقسیم ضرور کیا جاتا تھا۔ معمولی درجہ اور گندمی رنگ رکھنے کے باوجود اس عظیم شخص کے پاس نہ تو دولت تھی اور نہ ہی سیاسی بیک گراﺅنڈ صرف اتنا ہی میسر تھا کہ گھر کی دال روٹی چلتی رہے۔ انکے والدین نے روزگار کیلئے ایک بادبانی کشتی خریدی تھی جو کہ زائرین کو دریا کے پار مندر سے لے آتی لے جاتی تھی جس سے انکے والد کا ہاتھ کچھ قدرے کشادہ ہو گیا۔ مگر قدرت کوکچھ اور منظور تھا کہ ایک دن طغیانی نے بڑی محنت سے بنائی گئی اس کشتی کو ملیامیٹ کر دیا۔ 1939ءمیں انکی عمر تقریباً آٹھ سال ہو گی جب ہندوستان اتحادی فوجوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہو گیا۔ اس کاسب سے زیادہ اثر ان کے گاﺅں پر پڑا کہ گاﺅں کے قریب گزرنے والی ریل گاڑی رکنا بند ہوگئی جس سے اخبار کا حصول ممکن نہ رہا۔ اور اخبارکی فروخت سے حاصل ہونیوالی آمدن بند ہو گئی اور پھر زندگی انہیں مزید سختیوں کے آگے ڈال کر چلتی بنی۔ سکول کی پانچویں جماعت میں ٹوپی پہننے کی وجہ سے استاد اسے مسلمان جان کر سامنے کی قطار میں بیٹھنے کی بجائے پچھلے ڈسکوں پر بیٹھنے کیلئے کہا کرتے تھے۔ وہ کبھی کبھی اپنے بھائی کے کریانہ کی دکان پر کئی کئی روز مسلسل کام میں جتا رہتا۔ تعلیم حاصل کرنے کیلئے وسائل کا نہ دستیاب ہونا سوحانِ روح بنا رہا۔ مگر مسلسل محنت اور تگ و دو کرتے رہنے کی وجہ سے اس نے اپنے تعلیمی ریکارڈ کو ہمیشہ اچھا رکھا۔ ہندوستان میں سب سے بڑے ادارے ایم آئی ٹی میں داخلہ لینا ان کا خواب تھا۔ جب داخلے کیلئے کامیاب امیدواروں کا اعلان ہوا تو اس کی بہن نے اپنا زیور بیچ کر ان کو داخلہ لینے کیلئے منت سماجت کی۔ کیونکہ وہ ان کو تعلیم یافتہ انسان دیکھنا چاہتی تھی۔ داخلہ لینے سے پہلے انہوں نے گروی رکھی ہوئی چوڑیوں کو ایک دن واگزار کرنے کی بھی قسم کھائی تھی۔ لہٰذا وہ پہلے سے زیادہ محنت کرنے لگا بالآخر ہندوستان کے ایرونوٹکس لمیٹڈ میں ایک رکن کے طور پر اپنا کام شروع کیا۔ جہاں انجنوں کی اوور ہالنگ کے متعلق نہ صرف اس نے دسترس حاصل کی بلکہ اس کو مزید بہتر بنانے کیلئے بہت سے منصوبوں پر سوچنا شروع کیا۔ انکی قابلیت کو دیکھتے ہوئے ہندوستانی گورنمنٹ نے امریکی ادارے ناسا میں کام کرنے کیلئے کہا جہاں اس نے اس کام کو بہت توجہ اور لگاﺅ سے سیکھا۔ امریکہ سے واپسی پر 1963ءمیں بھارت کو ایک راکٹ بنام نایک اپاچی بنا کر دیا پھر یہ سلسلہ ایسے چلتے رہا بالآخر ہندوستان کی راکٹ سازی میں وہ کمال کر دکھایا کہ پورا ہندوستان گرویدہ ہو گیا۔ حکومت نے اسکے کام کی بدولت جہاں بہت سے بڑے انعامات اور اعزازات سے نوازا وہاں ان کو صدارت کا عہدہ بھی دلایا۔ اس کا نام زین العابدین عبدالکلام ہے جس نے نہ کوئی مکان، جائیداد بنائی نہ بیٹے نہ بیٹیاں ان کہانیوں کے پس منظر میں پاکستان کی تاریخ کو دیکھیں تو ہمیں ایسا کوئی صدر نہیں ملتا جس کو ان کے مقابل میں رکھا جا سکے۔ بھٹکے ہوئے اور راہ گم کردوں کا کبھی کبھی صحیح سمت میں چلے جانا عین ممکن ہوتا ہے۔ مگر منزل گریزوں کا نہیں۔ ہم بھٹکے ہوئے اور راہ گم کردہ سے منزل گریز زیادہ لگتے ہیں؟ لہٰذا ایسے حالات میں کسی رہبر کا ظہور ہونا بہت دشوار لگتا ہے۔ علامہ اقبال ؒفرماتے ہیں۔
قیس پیدا ہوں تیرے صحرا میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے محمل تیرا اور محمل ہے بے لیلیٰ تیرا

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...