عالمی برادری کو مظلوم کشمیریوں کے حق کیلئے عملیت پسندی سے کام لینا ہوگا

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مقبوضہ کشمیر میں مخدوش صورتحال پر پھر تشویش‘ بھارتی حکومت کی اپنی سپریم کورٹ میں دروغ گوئی
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 80 لاکھ کشمیری بری طرح محصور ہو کر رہ گئے ہیں‘ مواصلاتی تعطل نے ریاست میں زندگی مفلوج کرکے رکھ دی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جموں و کشمیر میں مواصلاتی اور دیگر پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ گزشتہ روز ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے بھی کہا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست کے بعد سے 4 ہزار سے زیادہ کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار ہونیوالوں میں عوامی نمائندے‘ صحافی اور سیاست دان شامل ہیں۔ بنیادی آزادی چھین کر اور گرفتاریوں سے انسانی حقوق کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی سائوتھ ایشیا ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا کہنا تھا کہ بھارتی حکام زیرحراست نہتے کشمیریوں کو فوری رہا کریں۔ دریں اثناء وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا نے دیکھ لیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر ہونے سے متعلق جھوٹ بولتا رہا۔ عمران خان نے کہا کہ آج پاکستان کے مؤقف کی تائید ہوئی، کشمیریوں کی ہر فورم پر حمایت جاری رکھیں گے، 27 ستمبر کو کشمیر کا سفیر بن کر جنرل اسمبلی میں خطاب کروں گا۔
ڈیڑھ ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں حالات ہرگزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوئے اور اب تو بدترین ہوچکے ہیں۔ بھارتی فورسز کی سفاکیت اور بربریت سے مقبوضہ وادی میں انسانی بحران پیدا ہوچکا ہے۔ کرفیو کی کڑی اور غیرانسانی پابندیوں کے باعث لوگ گھروں میں قید ہوکر رہ گئے ہیں۔ وادی کو کشمیر کیلئے عقوبت خانہ بنا دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق معطل اور بنیادی انسانی ضروریات کی ادویات اور خوراک سمیت شدید قلت ہے۔ واٹر ٹائٹ پابندیوں میں انکے جو عزیز اس جہانِ فانی سے کوچ کرجاتے ہیں‘ انہیں دفنانے کیلئے وہ قبرستان تک بھی نہیں لے جا سکتے اور مجبوراً وہ اپنے گھروں کے صحن کو ہی قبرستان بنارہے ہیں۔ اس سے بڑی انسانی بے بسی بھلا اور کوئی ہو سکتی ہے کہ آج کشمیریوں کا باہر کی دنیا سے ہی نہیں‘ اپنے پیاروں سے بھی رابطہ مکمل منقطع ہے۔ اس پر پوری دنیا سے آوازیں اٹھ رہی ہیں مگر سنگ دل بھارتی حکمرانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ انکی طرف سے عالمی رائے عامہ کو یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سب اچھا ہے‘ کشمیری مطمئن ہیں۔ یہی جھوٹ بھارتی حکومت کے وکیل نے سپریم کورٹ میں بولا۔ اسے بھانپ کر ہی چیف جسٹس رانجن گوگوئی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں جلدازجلد معمولات بحال کرنے کے احکامات جاری کئے۔ اسکے ساتھ ہی غلام نبی آزاد کو مقبوضہ وادی میں جانے کی اجازت دیتے ہوئے وہاں کے حالات کی تفصیلات سے آگاہ کرنے کو کہا۔
ایسی حکومت سے کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں جو اپنے ہی ملک کے سب سے بڑے انصاف کے فورم پر ڈھٹائی سے دروغ گوئی کرے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سامنے بھی کشمیریوں کی حالت زار عیاں ہے۔ اس سے کسی غیرمعمولی فیصلے کی توقع تو نہیں کی جا سکتی البتہ کشمیریوں کو کسی حد تک ریلیف ضرور مل سکتا ہے۔ انصاف کا اولین تقاضا تو فوری طور پر کشمیریوں پر عائد جابرانہ پابندیوں کا بلاتاخیر خاتمہ تھا۔ اس طرف بھارتی سپریم کورٹ نہیں گئی تاہم اسکے ریمارکس سے مودی سرکار دنیا کے سامنے مزید ایکسپوز ہوگئی ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھی ایسا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی گئی۔ وزیراعظم عمران خان‘ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی‘ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی اور وزارت خارجہ کا کردار جاندار رہا ہے۔ کشمیریوں کی آواز دنیا کے متعلقہ فورمز پر پہنچائی گئی ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑا پلیٹ فارم اقوام متحدہ ہے۔ پاکستان کی کوششوں سے وہ بھی متحرک تو ہوئی ہے مگر اس سے پاکستان اور کشمیری جو توقعات رکھتے تھے‘ اس پر وہ پورا نہیں اتر سکی۔ تاہم اسکی طرف سے مقبوضہ وادی میں بہیمانہ بھارتی اقدامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی قراردادوں کو ہی مسئلہ کشمیر کا حل قرار دیا گیا ہے۔ سلامتی کونسل بھی کشمیر کاز کی حمایت کرچکی ہے۔ یورپی یونین‘ او آئی سی سمیت دنیا کے ہر اہم پلیٹ فورم سے بھارت پر کشمیریوں کیخلاف مظالم بند کرنے کیلئے دبائو ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان کی فعال سفارتکاری کے باعث ہی ہوا ہے۔ پاکستان میں موجودہ سفارتکاروں کو ہمہ وقت کشمیر کی صورتحال سے آگاہ رکھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا ذمہ دارانہ کردار ادا کررہا ہے۔ پاک فوج اور سیاسی حکومت ایک پیج پر ہیں‘ پاک فوج حکومت کا مضبوط بازو ثابت ہو رہی ہے۔ گزشتہ روز کشمیر ایشو کو مزید اجاگر کرنے کیلئے صحافیوں کو دورے کے دوران آئی ایس پی آر نے بریفنگ دی اور گزشتہ روز مظفرآباد کا دورہ بھی کرایا۔
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز امریکی صدر ٹرمپ پر زور دیا تھا کہ انکی سنجیدہ کوششوں سے مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ پر امریکہ کے اندر سے بھی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے زور ڈالا جارہا ہے۔ گزشتہ روز امریکہ کے 7 قانون سازوں نے ایک دستخط شدہ خط میں کہا ہے کہ ' (کشمیر سے) جبری گمشدگیوں، بڑے پیمانے پر نظربندیاں، ریپ‘ جنسی استحصال‘ سیاسی، معاشی اور سماجی رہنمائوں کو اہداف بنا کر نظر بند کرنے کے الزامات کی موصول ہونیوالی رپورٹس کرب ناک ہیں۔ انکی طرف سے جو کہا گیا یہی حقیقت ہے جو بھارت کے جھوٹ کو بے نقاب کرتی ہے۔ ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں امریکی کانگریس اراکین اور سینیٹرز کا امریکی انتظامیہ کو لکھا گیا یہ تیسرا خط ہے، جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ان خطوط میں سے ایک میں 4 اہم امریکی سینیٹرز نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر اور دیگر قابل ذکر تنازعات کے حل میں اپنا تعمیری کردار ادا کریں، ایسا کردار جس سے جنوبی ایشیا کی 2 جوہری طاقتوں کے درمیان ثالث کی ضرورت ہوگی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت اس وقت جس ہٹ دھرمی پر اترا ہوا ہے اور بدمست ہاتھی کی طرح اس پورے خطے کو تہس نہس کرنے پر تلا بیٹھا ہے‘ وہ کسی عالمی دبائو کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ بھارت کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر میں بربریت کے نت نئے طریقے اختیار کئے جارہے ہیں‘ نوجوانوں کو شہید کیا جارہا ہے‘ سیاست دانوں ‘ صحافیوں اور کشمیری نوجوانوں سمیت تقریباً چار ہزار سے زائد کو گرفتار کرکے انہیں مختلف جیلوں میں قید کیا ہوا ہے۔ مقبوضہ وادی میں عقوبت خانے شاید کم پڑ گئے کہ ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کرکے بھارت بھجوا دیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کشمیر کی صورتحال پر متعدد بار تشویش کا اظہار کیاکرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارتی سفاک فورسز نے 80 لاکھ کشمیریوں کو بری طرح محصور کیا ہوا ہے۔ مواصلاتی نظام نے ریاست میں زندگی مفلوج کی ہوئی ہے جبکہ ہیومن رائٹس واچ نے بھی مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست کے بعد سے چار ہزار سے زائد گرفتاریوں سے انسانی حقوق سے مذاق اڑانے کے مترادف قرار دیا۔اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے پیدا ہونیوالی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے‘ کرفیو کے باعث عوام پچھلے 44 دنوں سے اپنے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے۔ ان حالات کے باوجود کشمیری اپنی ریاست اور حق خودارادیت سے کسی طور دستبردار ہونے کو تیار نہیں‘ موقع ملتے ہی وہ کرفیو کی پابندیاں توڑ کر سڑکوں پر آجاتے ہیں‘ جنہیں بھارتی فورسز سیدھی فائرنگ کا نشانہ بناتی ہیں جس سے کشمیری شہید‘ معذور اور مستقل اپاہج ہورہے ہیں۔ مگر ان کے آزادی کے جذبات میں کمی نہیں آرہی۔ وہ اس حق کی خاطر لڑ رہے ہیں جو اقوام متحدہ نے انہیں استصواب کی صورت میں دیا ہے۔ اقوام متحدہ‘ او آئی سی‘ ہیومن رائٹس کونسل جیسے اداروں اور یورپی یونین کو اب بیان بازی سے آگے بڑھ کر کشمیریوں کو ان کا حق دلانے کیلئے عملی اقدامات کرنا ہونگے۔ورنہ بھارت اپنے جنگی جنون میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو جس نہج پر لے آیا ہے‘ وہ نہ صرف خطے بلکہ انسانیت کی بربادی کا بھی سبب بن سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن