2ججز کی معذرت ، سپریم جوڈیشل کونسل کیخلاف جسٹس فائز کی درخواست سننے والا بنچ تحلیل

اسلام آباد (اعظم گِل) سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائزعیسی کی سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف درخواست پر سماعت کرنے والا سات رکنی بینچ ٹوٹ گیا، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا اعتراضات سے پہلے ہی بینچ چھوڑنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا میرے ساتھی جج کے اعتراضات غیر مناسب اور درست نہیں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کسی فریق کو بینچ پر اعتراض کا حق نہیں ہونا چا ہیئے، بینچ میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ جج کو کرنا ہوتا ہے۔ سماعت کے آغاز پر وکیل ارشد چوہدری نے کہا پوری بارز جسٹس قاضی فائز عیسی کی سماعت کی حمایت کرتی ہیں، اسی لئے ہم سب بھی یہاں موجود ہیں۔ عدالت سٹاف کو ہدایت دے کہ کمرہ عدالت میں موجود تمام وکلا کی حاضری لگائے جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ تشریف رکھیں بے شمار وکلا موجود ہیں ابھی یہ مرحلہ نہیں آیا جس کے بعد باقاعدہ کیس کی کاروائی شروع ہوئی تو جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے منیر اے ملک پیش ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا منیر اے ملک کیا جسٹس صاحب کے وکیل کی حثیت سے آئے ہے؟ ہم آپکے آنے سے بہت خوش ہیں۔ آپ بڑے فاضل وکیل ہیں، منیر اے ملک نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی نئے عدالتی سال کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا چیف جسٹس نے کہا تھا کہ احتساب کے عمل کی غیر جانبداری ثابت کرنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ احتساب کا عمل غیر متوازن اور پولیٹکل انجئنرنگ کا تاثر مل رہا ہے احتساب کا عمل جوڈیشل انجئنرنگ کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے۔ میں نے ایک درخواست دائر کر رکھی ہے جس میں دو استدعا ئیں کی گئیں ہیں پہلی استدعا ہے کہ میرے موکل کا کیس فل کورٹ سنے اور دوسری استدعا یہ ہے کہ صرف اہل ججز ہی میں موکل کا کیس سنیں۔ منیر اے ملک نے اہل ججز کی تعریف بیان کرتے ہوے کہا ایسے ججز جن کو میرے موکل کے کیس سے کسی قسم کا فائدہ ہو، یا پھر سپریم جوڈیشل کونسل میں شامل ججز کو بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہیئے۔ منیر اے ملک نے کہا مجھے میرے موکل کی خاص ہدایت ہے کہ عدلیہ کا تشخص خراب نہیں ہونا چاہیے تاہم اس بینچ میں کچھ ججز کو مقدمہ سننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ کوئی جج اپنے کاز کا جج نہیں ہو سکتا جس پر جسٹس عمر عطابندیا ل نے کہا ججز کے کیس سننے سے متعلق استدعا پر مزید دلائل سننا چاہتے ہیں۔ منیر اے ملک نے کہا پوری قوم کی نظریں اس مقدمہ پر ہیں۔ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ جسٹس عمر عطا بندیا ل نے کہا کونسے عوامل سے جج کی جانبداری ثابت ہوتی ہے ؟ اس عدالت کا ہر جج اپنی ذمہ داری آئین اور قانون کے مطابق ادا کرتا ہے اس عدالت کے کسی جج کا کسی مقدمے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جج کی جانبداری کا کہہ کر آپ غلط جانب جا رہے ہیں۔ تاہم ہم تعصب یا جانبداری پرمزید دلائل سننا چاہتے ہیں.جس پر وکیل نے کہاجن ججز نے چیف جسٹس بننا ہے۔ انکی دلچسپی ہو سکتی ہے اس بینچ کے دو ججز ممکنہ چیف جسٹس بنیں گئے اس لئے ان دو ججز کا براہ راست مفاد ہے۔ چیف جسٹس بننے سے انکی تنخواہ بڑھے گی جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جسٹس خواجہ کا فیصلہ موجود ہے۔ اس فیصلہ کے مطابق جج بطور جج کسی کو نہیں جانتا۔ آپ نے عدلیہ کو مضبوط کرنا ہے کسی جج پر ذاتی اعتراض نہ اٹھائیں۔ تمام ججز کھلی عدالت میں بیٹھے ہیں کسی جج کے رویہ میں لچک دیکھیں تو ہمیں بتائیں کاروائی کے آغاز میں ایسا اعتراض نہ اٹھائیں اس اعتراض سے لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بھی مجروح ہو گا۔ یہ محض افواہوں کا دروازہ کھولنے کی بات ہے انکار کرنے کا حق جج کو حاصل ہے جسٹس عمر عطابندیا ل نے کہا کسی جج نے 2025 میں چیف جسٹس بننا ہے تو کیا آپ چاہتے ہیں وہ مقدمہ سننے سے انکار کردیں؟ وکیل منیر اے ملک نے کہا ہم اس جج کا تشخص بچانا چاہتے ہیں ان ججز کے کندھوں پر ذمہ داری ہے وہ خود فیصلہ کریں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدالتی فیصلے موجود ہیں کسی جج کو مقدمہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کا نقطہ ان ججز نے سن لیا ہے. وہ خود فیصلہ کر لیں گے منیر اے ملک صاحب آپ کاروائی کو آگے بڑھائیں جسٹس فیصل عرب نے کہا درخواست مقرر ہوئی تو معاملہ کا جائزہ کونسل لے گی۔ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس آئے تو سینئر جج کونسل کا چئیرمین ہوتا ہے.کیا کل کو اس کو بھی کیس نہیں سننا چا ہیئے جس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا ادارہ کے تحفظ کے لیے یہ اعتراض اٹھایا گیا ایک مقدمہ میں جسٹس اجمل نے مقدمہ سننے سے انکار کیا.جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اس مقدمہ میں جسٹس اجمل یہاں آئندہ کے چیف جسٹس تھے وکیل نے کہا اگر کسی کا براہ راست مفاد ہے تو معاملہ کوڈ آف کنڈکٹ کا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اس حوالے سے سپریم کورٹ کے ججز کنڈکٹ کے رول چار سے آغاز کرتے ہیں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا فل کورٹ کا مطلب تمام ججز کو شامل کرنا ہوتا ہے تاہم اگر کو ئی جج انکار کر دے تو وہ اس جج کی مرضی ہے۔ تاہم وقفہ کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا میرے ساتھی ججز اس کیس کو نہیں سننا چاہتے جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا میں ان اعتراضا ت کے باعث کیس سے علیحدہ نہیں ہو رہا میں صبح ہی علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا جسٹس اعجازالاحسن نے کہا میرا حلف مجھے تمام حالات میں بغیر خوفزدہ ہوئے درست فیصلے کا کہتا ہے میرا حلف کہتا ہے کہ میں ذاتی مفاد سے میرے فیصلوں یا دفتری کاموں پر اثر انداز نہیں ہوتا، جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا تاہم میرے ساتھی جج جو کہ اس مقدمے میں درخواست گزار بھی ہیں انکے جانب سے سامنے لاے گئے تحفظات نہ تو درست ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی بنیاد ہے درحقیقت میں ان درخواستوں کو سننا نہیں چا ہتا اس لئے بہتر ین روایات اور انصاف کے تقاضوں، شفافیت کے اعلی معیار اور میر ی اخلاقی اقدار کو سامنے رکھتے ہوے میں خود اس بینچ میں بیٹھنا مناسب نہیں سمجھتا جس کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا نئے بینچ کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیج رہے ہیں ہم جانتے ہیں اس کیس کیلئے وکلا ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہیں اس لئے چیف جسٹس سے درخواست کی جائے گی کہ کیس کو جلد سماعت کیلئے مقرر کیا جائے، جو کہ ممکنہ طور پر آئیندہ ہفتے بھی ہو سکتی ہے تاہم کسی جج کے بینچ میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا سوال اہم ہے۔

ای پیپر دی نیشن