کراچی میں میرے ایک دوست قیامت کی تین نشانیاں بتایا کرتے تھے۔اول:پٹھان سود لینا چھوڑ دینگے۔دوم:آغاخانی اور بوہرے بندوقیں لیکر باہر پبلک میں پھراکرینگے ۔تیسرا اور سب سے اہم یہ کہ بلوچ بستے لیکر سکول جانا شروع کر دینگے۔ وہ یہ پیش گوئی سنجیدگی سے سنایا کرتے تھے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ پاکستان کی ایک بڑی قوم ہے اور یہ پاکستان کے علاوہ ایران اور افغانستان میں بھی آباد ہے۔انگریزوں نے لڑاکا قوموں کے نام پر جب فوجی یونٹیں کھڑی کیں تو ان میں بلوچ یونٹ بھی بنائی گئی جو اب بھی پاکستان فوج کا حصہ ہے۔تعداد میں بھی یہ پاکستان میں آباد تمام قوموں سے زیادہ ہیں مگر انکا المیہ یہ ہے کہ تعلیمی طور پر سب سے پیچھے ہیں۔ اسے بد قسمتی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ تعلیم میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ایک دفعہ ایک نجی پارٹی میں میں نے جناب مرحوم جام غلام قادر صاحب سے پوچھا کہ جناب آپ بلوچوں کی تعلیم پر کیوں نہیں توجہ دیتے؟ وہ اسوقت بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے۔فرمایا آپ کو پتہ نہیں کہ بلوچ کو پڑھانا کوئی آسان بات نہیں۔بلوچ کو پڑھانا اونٹ کو رکشے میں بٹھانے کے برابر ہے۔ ساتھ بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے فوراً جام صاحب کو ٹوکا۔یہ صاحب غالباً کوئی وزیر تھے۔کہنے لگے:
’’ جام صاحب بلوچ کو پڑھانا ابو جہل کو مسلمان کرنے کے مترادف ہے‘‘۔ایک قہقہ لگا اور بات ختم ہو گئی۔بلوچوں کی تعلیم کے متعلق جو بھی لطیفے ہیں وہ اپنی جگہ درست ہیں مگر نجانے کیوں بلوچ تعلیم کی طرف کم ہی مائل ہوتے ہیں۔ ان لطیفوں کیلئے اپنی برادری سے معذرت خواہ ہوں۔خوشی کی بات ہے کہ موجودہ دور میں حالات بدل رہے ہیں لیکن بلوچوں کی بد قسمتی دیکھیں جو پڑھ لکھ جاتا ہے وہ اکثر گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔میری اس مثال کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ مندرجہ ذیل چند مثالیں قارئین کرام کیلئے حاضر خدمت ہیں۔
شہداد بلوچ اور احسان بلوچ بڑے ذہیں نوجوان تھے ۔دونوں کا تعلق تربت سے تھا۔ احسان بلوچ نے تو تربت یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ دونوں کو تعلیم کا بہت شوق تھا۔اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے سی ایس ایس کرناچاہتے تھے۔شہداد بلوچ انسانی حقوق کمیشن کا ممبر بھی تھا۔اس دور میں بلوچستان سے بہت لوگ اغواء ہو رہے تھے۔شہداد ان کی بازیابی کیلئے بہت کوشش کرتا رہا ۔بالآخر 2015میں شہداد خودبھی اغواء ہو گیا۔چند ماہ بعد یہ بازیاب تو ہو گیا لیکن اغواء کے دوران اسے بہت سی تکلیفات برداشت کرنا پڑیں۔ بہر حال یہ دونوں اسلام آباد چلے گئے اور ملک کی نامور قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ شہداد نے ڈیفنس اور سٹرٹیجک سٹڈیز میں ایم اے کیااور بعد میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز میں اسی مضمون میں ایم فل میں داخلہ لے لیا۔احسان نے شعبہ جنڈر سٹڈیز میں ایم اے کیا۔شہداد سیاسی طور پر متحرک تو تھا ہی اور پھر وہاں بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کا سیکرٹری بن گیا۔جب بلوچستان یونیورسٹی میں لڑکیوں کی ہراسمنٹ ہوئی توشہداد نے جلوس نکالا اور جلوس لے کر پریس کلب پہنچا۔2018میں حامد میر نے یونیورسٹی میں ایک پروگرام کیا جس میں جناب احسن اقبال صاحب نے گوادر اور سی پیک پر تقریر کی اور اس میں بلوچستان کی ترقی اور ملازمتیں ملنے کی خوشخبری سنائی۔شہداد کھڑا ہو گیا اور پوچھا جناب بلوچستان میں ریکوڈک بھی تھا۔ سیندک بھی تھا سوئی گیس بھی1951سے استعمال میں آئی تو ان کا بلوچستان اور بلوچوں کو کیا فائدہ ملا جو اب سی پیک سے ہوگا۔ احسن اقبال نے گول مول جواب دیکر جان چھڑائی ۔یکم مئی2020 کو بلوچستان عسکریت پسند تنظیم کا ایک فوجی پارٹی سے مقابلہ ہوا تو یہ دونوں بھی مارے گئے کیونکہ یہ بھی اس تنظیم میں شامل تھے۔
حیات بلوچ کا کیس حال ہی میں وقوع پذیر ہوا۔ حیات بھی بڑا ذہین نوجوان تھا ۔سیاسی طور پر بھی با شعور ،نیک دل اور اپنے لوگوں کی مدد کیلئے بیقرار۔ یہ کراچی یونیورسٹی میں ایم اے فائنل سائیکالوجی کا طالبعلم تھا۔ ابھی کرونا کی وجہ سے یونیورسٹی بند ہوئی تو گھر تربت میں آگیا۔ اسکا باپ ایک غریب آدمی تھا جس نے ایک چھوٹا سا کھجوروں کا باغ ٹھیکے پر لے رکھا تھا۔ حیات کے ماں باپ صبح کام کیلئے باغ جاتے تو یہ بھی ساتھ چلا جاتا۔ باغ کے ساتھ ایک سڑک تھی۔ وہاں سے فرنٹیر کور کا ایک دستہ گزر رہا تھا کہ اچانک ایک سرنگ پھٹی اور چار جوان زخمی ہو گئے۔ ان جوانوں نے کھجوروں کے باغ کی تلاشی لی تو حیات کو پکڑ لیا۔ اسکی آنکھوں پر پٹی باندھ کر سڑک پر لے آئے۔خوب مکے مارے۔ پائوں سے ٹھڈے مارے۔حیات بلوچ کے ماں باپ نے فوجی جوانوں کی بہت منتیں کیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے واسطے دئیے لیکن انہوں نے حیات کو نہ چھوڑا۔ ایک جوان کو زیادہ غصہ آیا تو اس نے ماں باپ کے سامنے آٹھ گولیاں حیات کے سینے کے پار کر دیں۔ماں باپ کے غم اور غصے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح جون2009میں ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی بلوچ بیمار ہو گئی۔ ڈاکٹر دین محمد اسے علاج کے لئے کوئٹہ لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب ضلع خضدار کے ایک دیہاتی ہسپتال او ناج میں تعینات تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو کوئٹہ میں پیغام ملا کہ فوری واپس ڈیوٹی پر آئیں۔ وہ بیمار بیٹی کو کوئٹہ چھوڑ کر رات ڈیوٹی پر آ گیا۔ رات کے پچھلے پہر کچھ سول کپڑوں میں لوگ آئے اور رات کو ڈاکٹر صاحب کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اب تک اسکی گمشدگی کو گیارہ سال ہو گئے ہیں۔ سمی بلوچ اب اکیس سال کی ہے۔ اس نے ہر ممکن کوشش کی علاقے کے تمام ایم این اے سے ملی، وزرا سے ملی۔ بلوچستان ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ میں کیس کیا۔ کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک تین ہزار کلو میٹر پیدل ننگے پائوں سفر کیا مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ آج تک انہیں نہیں پتہ کہ انکا والد کہاں ہے اور زندہ بھی ہے یا نہیں۔ زندگی عذاب بن گئی ہے۔ابھی میڈم شاہینہ شاہین کا کیس تو چند ہی دنوں کی بات ہے جسے دن دیہاڑے گولی مار کر ختم کر دیا گیا۔ وہ بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ، ،ایک نوجوان مصورہ ، صحافی ،سماجی کارکن اور اینکر پرسن تھی۔ اسی طرح کے ہزاروں کیسز ہیں ۔ پہلے صرف ان پڑھ بلوچ علیحدگی کی تحریک چلا رہے تھے اب پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ مجرم ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کر کے سزا دلوائیں۔ اگر مجرم نہیں تو موجودہ طریقہ سزا با لکل غلط ہے۔
بلوچ ہمیشہ عزت سے جیتا جاتا ہے دھونس دھاندلی اور گولیوں سے نہیں۔بلوچ ٹھیک کہتے ہیں کہ اسمبلی میں آلو،پیاز اور ٹماٹر پر تو بات ہوتی ہے تو بلوچستان کا مسئلہ کیوں اسمبلی میں نہیں لا یاجا سکتا۔ کیا بلوچ پاکستانی نہیں؟