پوری دنیا میں لاک ڈاون کے بعد اس نسل نے کئی نئی چیزوں کا تجربہ کیا جن میں آن لائن آرڈرز سے لے کر ہوم ڈیلیوری سروس اور گھر بیٹھ کر دفتر چلائے گئے۔آئی ٹی سے جڑی کمپنیوں نے اس دوران بے تحاشہ منافع کمایا اور جہاں دنیا کی سب کمپنیوں کے اربوں ڈالر ڈوب گئے وہیں نیٹ فلیکس نے اربوں ڈالر کمائے۔
اس دوران بہت سارے لوگ اپنی نوکریوں سے محروم ہو گئے اور ایسے میں پوری دنیا میں ایسے لوگوں کی مدد میں بہت سارے لوگ باہر آئے اور ان کے کھانے پینے کا خیال رکھا۔ یورپ جہاں اس موذی وائرس نے تباہی مچائی وہاں کی حکومتوں نے مکمل لاک ڈاون لگا کر اپنے ملکوں کو اس وائرس سے محفوظ کیا۔ وہیں امریکہ اور بھارت جو اب اس بری طرح اس وائرس کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں نئے مریض آ رہے ہیں۔ ایسے میں ہمیں اس بات پر اپنی حکومت کو ضرور شاباش دینی چاہیے کہ انہوں نے ایک بہت ہی موثر اور مربوط پالیسی کے ساتھ اس وبا پر قابو پا لیا۔ نہ کوئی غذائی بحران آیا نہ ہی کوئی انسانی المیہ۔ دیکھا جائے تو مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر بے انتہا تنقید کی جا رہی تھی اور حکومت کو بہت زیادہ دبائو میں لایا جا رہا تھا مگر جو پالیسی بنائی گئی اس پر مکمل عمل درآمد کر کے اس وائرس سے جان بچا لی گئی۔اب پاکستان پر یہ فرض ہے کہ جب دنیا ایسے مشکل حالات سے دوچار ہے تو وہ اپنے تجربات اور اپنی حکمت عملی سے دوسرے ممالک جہاں ابھی یہ وائرس زیادہ شدت پکڑے ہوئے ہے ان کو آگاہ کرے تا کہ وہ بھی ہمارے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مشکل میں پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کر سکیں۔ اور ان ممالک کی رونقیں بھی بحال ہو سکیں۔آج اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے یہاں تمام تر نظام زندگی مربوط قواعد وضوابط کے ساتھ مکمل طور پر بحال ہو چکا ہے ۔اور شادی ہال، ریستوران، سرکاری و نجی دفاتر حتی کہ تعلیمی ادارے بھی مکمل طور پر کھل چکے ہیں اور شہروں کی پہلی جیسی رونقیں بحال ہیں اور زندگی کی چمک دمک دوبارہ سے افشاں ہے۔
مگر ان سب حالات میں اب جہاں ہماری حکومت نے ہمارے لئے اتنا کچھ کیا اور ہمیں اس مصیبت سے بچایا ہے اب ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی ان تمام قواعد و ضوابط پر عمل کریںجو حکومت کی طرف سے ہمیں گاہے بگاہے بتائے جا رہے ہیں جن میں زندگی کے تمام تر معاملات میں سماجی فاصلہ رکھنا بہت اہم ہے اور اپنے ہاتھوں کی بار بار صفائی لازم ہے۔ بڑے تو ان باتوں کو سمجھ بھی لیتے ہیں اور عمل بھی کر لیتے ہیں مگر اصل مسئلہ تو بچوں کو سمجھانا ہے اب یہ ذمہ داری نہ تو عمران خان کی ہے اور نہ ہی دیگر محکموں کی کہ وہ بچوں کی اب دیکھ بھال کریں یہ فرض مکمل طور پر والدین کا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ہر حال میں سکول بھیجتے وقت ماسک لازمی پہنائیں اور اس سلسلے میں یہ بھی ہدایات ہیں کہ بیشک یہ ماسک کپڑے کا ہی کیوں نہ ہو بچوں کو پہنائیں لازمی اور جب وہ واپس آئیں تو اس ماسک کو دھو کر دوبارہ استعمال کر لیں۔ اس کے علاوہ آج کل والدین بچوں کی گھرمیں شرارتوں سے بھی بہت تنگ ہیں اور وہ سکول کھولنے کے اس حکومتی فیصلے کو بہت سراہ رہے ہیں مگر برائے مہربانی اگر آپ کے بچے میں کھانسی یا پھر کرونا کی کوئی بھی علامت ظاہر ہو تو اپنے بچے کو کسی صورت سکول نہ بھیجیں بلکہ کسی ڈاکٹر کو دکھائیں اور اگر طبیعت زیادہ خراب ہو تو اس بچے کا کرونا ٹیسٹ بھی کرائیں اور سکول انتظامیہ کو بھی اس کے متعلق آگاہ کریں۔
دوسری طرف حکومت پنجاب کے محکمہ تعلیم نے سکول کھولنے سے قبل اس کیلئے کافی اقدامات کئے ہیں اور جو قواعد و ضوابط وضع کئے ہیں ان پر عمل درآمد کیلئے بھی بھرپور طریقے سے کوشاں ہیں۔ ان انتظامات میں کوئی کوتاہی یا کمی بیشی نہ ہو اس کیلئے پنجاب بھر کے سکولوں کا غیر نصابی بجٹ جاری کر کے سکول کے اکائونٹس میں بروقت ٹرانسفر بھی کیا گیا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عثمان بزدار کی ٹیم کے وزیر مراد راس نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں بلکہ ان کو کیسے اچیو کرنا ہے یہ بھی جانتے ہیں۔ اللہ کرے کے وہ ان معاملات کو ایسے ہی تندہی سے دیکھتے رہیں اور جہاں ان کے دور میں اساتذہ کے بے پناہ مسائل حل کئے گئے ہیں وہیں وہ پنجاب کے بچوں کے لئے جدید نظام تعلیم کی راہ بھی ہموار کریں اور عام غریب انسان کا بچہ بھی سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر اور انجینئر بن سکے ۔ آمین