تجزیہ: محمد اکرم چودھری
بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ پی ٹی آئی حکومت کے لیے سب سے بڑی مشکل ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری بڑھنے سے عوامی سطح پر بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہونے سے انتشار پھیلنے اور دشمن کے لیے سازشیں کرنا آسان ہو سکتا ہے۔ حکومت کی طرف سے اب تک مہنگائی پر قابو پانے، عام آدمی کے لیے روزگار کے مواقع بڑھانے اور قوت خرید میں اضافے جیسے اہم مسئلے کو نظر انداز کرنے سے مختلف مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ حالات اتنے خراب ہیں کہ سرکاری اعدادوشمار تصدیق کر رہے ہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق بیروزگاری کی شرح دو ہزار سترہ، اٹھارہ میں پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تھی جو دو ہزار اٹھارہ انیس میں بڑھ کر چھ اعشاریہ نو فیصد ہو گئی۔ دو ہزار اٹھارہ انیس میں سب سے زیادہ بیروزگاری خیبر پختونخوا میں دس اعشاریہ تین فیصد جبکہ سندھ میں بیروزگاری کی شرح سب سے کم چار فیصد ریکارڈ کی گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور یہ مسلسل دوسری مدت ہے کہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ پنجاب میں بیروزگاری کی شرح سات اعشاریہ چار فیصد اور بلوچستان میں چار اعشاریہ چھ فیصد رہی۔ مردوں میں بیروزگاری کی شرح پانچ اعشاریہ ایک سے بڑھ کر پانچ اعشاریہ نو جبکہ خواتین میں یہ شرح آٹھ اعشاریہ تین سے بڑھ کر دس فیصد ہوگئی۔ دیہی اور شہری علاقوں میں ہر جگہ بے روزگاری میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ حکومت کا چوتھا سال ہے اور جو حالات اس وقت تک نظر آ رہے اس شرح میں کمی کا کوئی خاص امکان نہر نہیں آتا۔ حکومت کی پالیسیاں اور وزراء کے کام کرنے کا انداز ایسا ہے کہ سب سے اہم شعبہ ہونے کے باوجود اسے بے رحمی سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگر آزادانہ جائزہ لیا جائے تو یہ اعدادوشمار بڑھ سکتے ہیں ان میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ صرف وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ پر بھی یقین کیا جائے تو یہ رجحان خطرناک ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس شرح میں اضافہ ملک میں امن و امان کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔