پولیس سسٹم میں مثبت تبدیلی ہر ایک کی خواہش ہے جس کیلئے ہماری ہر حکومت بھی تگ و دو میں رہتی ہے پولیس اصلاحات لائی جاتی ہیں یہاں تک کہ پولیس یونیفارم ہر شعبے کے لحاظ سے الگ کردی گئی ہے یہ ساری کوششیں کسی نہ کسی طرح عوام میں پولیس کے امیج کو سخت گیر سے سافٹ بنانے کیلئے کی گئی ہیں لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اصل تبدیلی لیڈر شپ لایا کرتی ہے جس کی پولیس میں چیدہ چیدہ مثالیں بھی دی جاتی ہیں لیکن راولپنڈی پولیس میں عرصے سے یہ شکایت عام تھی کہ ہمارے افسران وسائل نہیں دیتے نفری کم ہے جان لڑا کر ڈیوٹی کرنے کا صلہ نہیں ملتا۔ ویلفیئر زیرو ہے واقعی یہ سب مسائل بڑے اہم تھے جنہیں حل کرنا ضروری تھا لیکن سوال یہ تھا کہ اس کام میں ہاتھ کون ڈالے اور اس مشکل کاحل راولپنڈی پولیس عرصہ سے دیکھنا چاہتی تھی شہری شکایت کرتے نہیں تھکتے تھے کہ تھانوں میں شنوائی نہیں پولیس جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن نہیں کرتی خواتین سائلان کی شنوائی کا سرے سے کوئی طریقہ کار ہی وضع نہیں پولیس سیاسی دباؤ میں رہتی ہے شہریوںکی کون سنتا ہے یہ سارے وہی جملے ہیں جو روزانہ کہیں نہ کہیں دہرائے جاتے اور سننے کو ملتے اس میں شک نہیں کہ پولیس ایسا محکمہ ہے جس سے معاشرے کا ہرفرد اپنی کسی نہ کسی ضرورت، مشکل یا پریشانی کی صورتحال میں اس تک پہنچتا ہے اس دوران اکثر ایسے معاملات بھی پولیس کو رپورٹ کردئے جاتے ہیں جو ضلعی انتظامیہ یا دیگر شعبوں سے متعلق ہوتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود پولیس کا امیج شہریوں کی نظر میں اتنا بہتر نہیں ہو پاتا جتنا اس محکمہ کے لوگ ڈیوٹی دیتے ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں اس میں توجہ طلب پہلو یہ بھی ہے کہ پولیسنگ کو بہتر بنانے کی لگن، عملی کام اور پھر اس کام پر مکمل عملدرآمد کے لئے بہترین فالو اپ ایک ضروری امر ہوتا ہے ظاہر ہے یہ کام با اختیار بڑے افسر کی اتھارٹی ہی سے انجام پا سکتا ہے راولپنڈی پولیس کی خوش قسمتی ہے کہ اس میں تبدیلی لانے کا عمل ایک خاص وضع قطع اور رفتار سے شروع ہوچکا ہے جس کیلئے اسے وہ لیڈر شپ مل گئی جس کی وہ کئی عشروں سے آس لگائے بیٹھی تھی جنھوں نے اپنی صلاحیت بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف فورس میں بنیادی اصلاحات کیں بلکہ ان اصلاحات کی نمو کی دیکھ بھال بھی کی تاکہ وہ بہتر ماحول میں پروان چڑھ سکیں پولیس لیڈرشپ سی پی او راولپنڈی محمد احسن یونس کو ملی توپہلی بار شہریوں کیلئے سروس ڈیلیوری کاصرف لفظ متعارف کروایاگیا ان کے سامنے شہریوں کی سب سے بڑی شکائت یہ تھی کہ ایف آئی آر درج نہیں ہوتی اسے حل کرتے ہوئے پہلا کام ہی ایف آئی آر کا آسان اور فوری اندراج سے شروع کیا اور آج شہریوں کی ایسی شکائت کم ہی ملتی ہے کہ ان کی ایف آئی آر درج نہیں ہورہی ہر تھانے میں ایس ایچ او کی موجودگی کو شہریوں کے لئے لازمی بنانا بھی اہم پیشرفت ہے اور اب تھانے کی سطح پر عوام کے مسائل کا حل بہتر ہواہے یہ کام اتنا زبردست ہے جو بطور رول ماڈل دیگرصوبوں کے اضلاع میں بھی شروع کیا گیا ہے اسی طرح شہریوں کی شکایات کے ازالہ کے لئے تھانہ میں تفتیش اور دریافت کے لئے بلا? جانے والے افراد کے حکمنامہ طلبی کو سوشل میڈیا پر مشتہر کر کے محکمانہ احتساب کے ایک نئے سسٹم کی بنیاد ڈالی گئی ہے جس سے تھانے میں تفتیش اور طلبی سے متعلق شہریوں کی شکایات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے سی پی او راولپنڈی کا ایک اور بڑا کام روزانہ کی بنیاد پر کھلی کچہری ہے محمد احسن یونس برملا کہتے ہیں کہ کھلی کچہری کے ذریعے روزانہ خود کو اور اپنی پولیس کو اپنے شہریوں کے سامنے احتساب کے لئے پیش کرتا ہوں مجھ سے یا میری فورس کے کسی بھی افسر یا اہلکار سے کوئی شکائت ہے تو جھجھکنے کی ضرورت نہیں میں خود جوابدہ ہوں روزانہ کھلی کچہری کا انعقاد، ہر شہری کا مسئلہ خود سننا اور متعلقہ افسران سے بات کر کے مسائل کے حل کے احکامات جاری کرنا بلاشبہ محنت طلب کام ہے لیکن سی پی او روز اوّل سے کسی ناغہ کے بغیر یہ نیک فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اور ہر درخواست پر فالو اپ کا نظام قائم کرکے بنیادی تبدیلی کی جانب قدم اٹھایا ہے، شہری جو تھانے میں کام نہ ہونے پر مشکل میں ہوتے تھے اب ان کے پاس ایک ذریعہ موجود ہے جہاں ان کا کام ہوتا ہے اور تو اور اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ شہری سب سے پہلے رابطہ ہی کھلی کچہری میں کرتے ہیں جو اس اقدام اور افسر پر شہریوں کے اعتماد اور یقین کا مظہر ہے تشدد، ہراسگی اورجنسی زیادتی کا شکار خواتین کے لئے بھی سی پی او محمد احسن یونس نے بیمثال کام کر دکھایاہے ڈائریکٹر ایف آئی اے اطہر وحید گزشتہ روز خواتین کی ہراسگی روکنے کیلئے پولیس کے فوری ایکشن اور خواتین کے تحفظ کیلئے منعقدہ ورکشاپ میں کہا کہ راولپنڈی پولیس کا خواتین کے لئے بنایا گیا وکٹم سپورٹ سسٹم جنوبی ایشیا کا پہلا مربوط سسٹم ہے جو سی پی او محمد احسن یونس کی طرف سے نہ صرف راولپنڈی بلکہ پنجاب اور پاکستان کے لئے اعزاز ہے پولیس سسٹم میں بہتری کیلئے لکھنے کو تو ڈھیروں باتیں ہوتی ہیں لیکن جب تبدیلی اور اصلاحات قابل عمل قرار پائیں تو اس کے مثبت اثرات اور نتائج کے ثمرات بھی طویل مدتی ہوا کرتے ہیں جس سے دیرپا نتائج کی حامل پولیسنگ گڈ گورننس اور انصاف کی فراہمی کے عمل میں تیز رفتاری دیکھنے کو ملتی ہے سکاٹ لینڈ یارڈ اور ترقی یافتہ ممالک کی پولیسنگ کے یہی عوامل انہیں دنیا میں ممتاز مقام تک لے گئے ہیں انشاللہ پاکستان بھی بہترین پولیسنگ میں رول ماڈل بننے کی سمت کی جانب بڑھنا شروع ہوا ہے پولیس ڈیجیٹل ہو رہی ہے جس سے راولپنڈی پولیس نے شفافیت کے بھی کئی پہلو اجاگر کرلئے ہیں ہماری ہمیشہ یہ خواہش دعا کے ساتھ آگے بڑھے گی کہ ہماری پولیس بھی مثالی تبدیلیوں اور پیشہ ورانہ مہارت کے حصول سے عالمی رینکنگ میں اپنا نمایاں مقام حاصل کر ے پولیسنگ میں ڈیوٹی کے دوران جان تک کی پرواہ نہ کرنے والے افسروں اور اہلکاروں کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ بھی پولیس کی نیک نامی بڑھانے میں مددگار رہے گا اور شہدائ کی فیملیز بھی اپنے پیاروں کی پولیسنگ کو خراج تحسین پیش کریں گی صحیح کہتے ہیں کہ تبدیلی صرف عملی کام سے آتی ہے راولپنڈی پولیس کے کلچر میں تبدیلی نظر آنے سے شہریوں کا اعتماد بھی بڑھا ہے سٹریٹ کریمنلز اور سنیچنگ کے متاثرین کی شنوائی اور ملزموں کے خلاف آپریشن میں مزید تیزی لانا بھی ضروری تھا جرائم میں کمی لانے کیلئے اقدامات میں تیز رفتار پولیسنگ کیلئے راولپنڈی پولیس کو ملنے والی نئی گاڑیاں بھی فائدہ مند ہو رہی ہیں یہ ضروری ہے کہ راولپنڈی پولیس اچھی پولیسنگ کے تسلسل کیلئے اسی جزبے سے چلتی رہے.