معرکہ بڈھ بیر اور کیپٹن اسفند یار بخاری شہید  …( 2) 

اس وقت کے خوفناک حالات میں اسفند نے جو فیصلہ کیا وہ حیران کن بھی تھا اور نہایت جرات مندانہ بھی ۔ اُس نے کہا کہ ان گیڈروں کو سبق سکھانے کیلئے ہمیں بلٹ بروف گاڑی سے باہر نکلنا ہو گا۔ میں نے فوراً کہا سر ! باہر شدید فائر نگ ہو ر ہی ہے ۔اس کے جواب میں اسفند نے کہا کہ اگر ہم نہ نکلے تو ہو سکتا ہے وہ کسی طرح کالونی میں گھسنے میں کامیاب ہو جائیں ۔ اور اگر یہ ہو ا تو  اے پی ایس پشاور سے بھی بڑا سانحہ رونما ہو جائے گا۔
 پھرہم نے دیکھا کہ ایک دہشتگرد بیرک سے فائرنگ کر تا ہوا مسجد کی سیڑھیو ں کی طرف جانے لگا۔ جہاں کافی زخمی کراہ رہے تھے۔ کپیٹن اسفند چشم زدن میں گاڑی سے باہر کو دے اور شدید فائر نگ میں اُس دہشت گرد پر چڑھ دوڑے۔ اسے ہلاک کرنے کے بعد ایک پِلرکی اوٹ سے دہشتگردوں پر فائر نگ کرنے لگے۔  ایک بات مشہور ہے کہ دہشت گرد بہت بہادر ہوتے ہیں ،انہوں نے اپنی جانیں اپنی ہتھیلی پر رکھی ہوئی ہوتی ہیں، آج تو حالت یہ تھی کہ یہ سورما موت کو سامنے پا کر گیڈروں کی طرح چھپتے پھر رہے تھے۔ آج تو ان کی خودکش جیکٹیں بھی نہ پھٹ رہی تھیں ،اُ ن کے اوسان مکمل طو ر پر خطا ہو چکے تھے ۔ 11-FFکے حوالدار محب اللہ کا کزن سپاہی نوشاد علی ٹانگ میں گولی لگنے کے باعث زخمی ہو گیا ۔ اُس نے ایک پلر کے ساتھ پناہ لے لی۔ ایک دہشتگرد فائرنگ کرتا ہو ا اس کے پاس سے گزرا۔ دہشت گرد نے اُسے دیکھا لیا ۔ نوشاد علی کہتا ہے کہ میں بے بس تھااورموت میرے سامنے کھڑی تھی ۔ابھی اس نے میر ی طرف گن اٹھا ئی ہی تھی کہ ایک سنستانی ہوئی گولی اس کا بھیجا اُڑا گئی اور وہ میرے سامنے زمین بوس ہو گیا ۔ میں نے فوراً غیر ارادی طور پیچھے دیکھا تو کپیٹن اسفند نظر آئے۔ پھر مجھے اٹھا کر محفوظ مقام تک لے آئے ۔ اُن کا یہ احسان کبھی بھول نہیں سکتا ۔ 8بجکر 7منٹ پر آپریشن تقریباً ختم ہو گیا۔ کپتان اسفند نے بریگیڈئیر عنایت حسین کو کال ملائی تا کہ انھیں بتا سکے کہ آپریشن ختم ہوا ۔ دہشت گرد تقریباً 12فٹ دروازے سے دور دیوار کے ساتھ کھڑا تھا ۔ گن ذرا ڈائون تھی ، سخت گھبرایا ہوا تھا ۔اسفند یار دھاڑ، اگن پھینگ  دو اور ہاتھ اوپر اٹھا لو۔ اُسی لمحے دہشتگرد کی گن سے ایک گولی نکلی۔ فرش کو لگ کر Deflectہو ئی اور اسفند یار کی بائیں ران کو معمولی زخمی کر گئی۔ اب اسفندیا ر نے پورا برسٹ اُسے مارا ۔ وہ مردود پیچھے گرا تو اُسکی گن اوپر آئی،  پھر اس میں سے ایک گولی نکلی جو سیدھی اسفند یارکی چھاتی کے بائیں جانب عین مقام ِدل میں پیوست ہو گئی ۔ دہشتگرد تو اسی وقت مر گیا۔ اسفند کو زخمی حالت میں باہر لایا گیا مگر ہیلی کاپٹر کے آنے سے قبل ہی یہ عظیم مجاہد اسلام کی خاطر اپنے وطن پر اپنی جان نچھاور کرگیا۔  ۔قابل ِ غور بات یہ ہے کہ اسفند کی کمانڈ لینے سے قبل 28افراد شہید اور 29زخمی تھے جبکہ اسفند کی کمانڈ میں صرف2جوان زخمی ہوئے اور شہادت اسفند کے حصہ میں آئی ۔کپتان اسفند یار کی مثال انڈیا میڈیا نے اس وقت دی ، جب انڈیا میں پٹھان کوٹ ائیر بیس میں 5حملہ آورگھس گئے تو انڈین آرمی کو ان سے ائیر بیس خالی کروانے میں 4 دن لگ گئے ۔انڈین میڈیاچیخ اٹھا کہ پاکستان کے ایک کپتان کی قیادت میں 14دہشتگردوں کو صرف 2گھنٹے میں مارکر بڈھ بیر ائیر بیس کلیئر کرا لیا اور یہاں 4 دن لگ گئے ۔
٭…معرکہ بڈھ بیر کے چار پیغامات 
۱۔ قوم کے لیے پیغام ہے کہ ان کے آرام سکون کیلئے افواج پاکستان اپنے نہایت قیمتی رتن قربان کر رہی ہے ۔اس بات کا احساس قوم کو بھی ہونا چاہیے جن ممالک کی فوج کمزور ہے ان کا حال دیکھیں ۔2افوا ج پاکستان کیلئے پیغام ہے کہ یہ مت سوچیں کہ آپکی ڈیوٹی ہے یا نہیں ۔آپ ہائی پرو فائل ہیں ۔مگر جب وطن پکارے تو سب کچھ پسِ پشت ڈال کر وطن کے دشمنوں پرٹوٹ پڑیں۔جس کی بہترین مثال کپتان اسفند یار بخاری ہیں۔3دہشتگردوں کیلئے پیغام ہے کہ آپ ہر مرتبہ پشاور کی تاریخ نہیں دہرا سکتے ۔اس فوج میں بہت سارے اسفند موجود ہیں جو ان کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں ۔4دنیا کو پیغام ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی طویل اور صبر آزما جنگ جیت لی ہے کیونکہ اسکے بہادر آفیسر سپاہیوں کے عقب میں نہیں چھیتے بلکہ فرنٹ سے لیڈکرتے ہیں ۔(ختم شد) 

ای پیپر دی نیشن