’’نقوش‘‘ استاد محترم سید شفیق الرحمان نوشاہی کی تصنیف ہے جو انہوں نے اپنے والد قبلہ حکیم سید مظفر حسین ظفر نوشاہی کی حیات و تعلیمات اور اُن کے متعلقین کے بارے میں تفصیل سے ترتیب دی ہے۔ عرض کرتا ہوں کہ ’’نقوش ظفر‘‘ کے مصنف سید شفیق الرحمان نوشاہی میرے اُستاد ہیں۔ میں نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ پبلک ہائی سکول کالو پنڈی سے پاس کیا۔ سید شفیق الرحمان وہاں ہمیں پڑھایا کرتے تھے۔ اسم مبارک شفیق کی مناسبت سے ویسے بھی انتہائی شفیق ، منکسر المزاج ، شرافت کے پیکر، ظاہری و باطنی صفات سے متصف ہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ کئی کتب کے مصنف بھی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’نقوش ظفر‘‘ ان کی شب و روز محنت کا ثمر ہے۔ ’’نقوش ظفر‘‘کا ابتدائیہ نقش حکمت کے عنوان سے جناب ڈاکٹر عارف نوشاہی نے لکھا ہے۔ انہوں نے بجا لکھا ہے کہ ’’نقوش ظفر‘‘ کے مصنف حکیم شفیق الرحمان نوشاہی کو جو شرافت کے خواہر زادہ ہیں ، حضرت کی محبتوں میں خاندان نوشاہیہ کی علمی خدمت کا ذوق ودیعت ہوا اور انہوں نے تذکرہ نگاری کا کام جاری رکھا۔ ان کی کئی سالوں کی کاوش کا نتیجہ پیش نظر کتاب ’’نقوش ظفر‘‘ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے والد بزرگوار حکیم سید مظفر حسین نوشاہی مرحوم کا تذکرہ لکھا ہے۔ مشہور عربی مقولہ ہے یعنی بیٹا اپنے باپ کا راز ہے لہٰذا جس طرح مصنف نے اپنے والد بزرگوار کو بچشم خود دیکھا اور جیسے معاصرین نے روایت کیا ، اس کے آمیزے سے ان کی زندگی کے نقوش میں رنگ بھر دئیے گئے ہیں۔ مصنف نے ان کی زندگی کے سبھی پہلوئوں پر بھرپور خامہ فرسائی کی ہے اور کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ بظاہر اس کتاب کی مرکزی شخصیت ایک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں خاندان اور خاندان سے باہر کے افراد کا بھی تذکرہ آگیا ہے اور یہ اس کتاب کی اضافی خوبی ہے۔
’’نقوش ظفر‘‘ کے تین حصے ہیں ، جنہیں نشانِ ظفر ، عرفان ظفر اور جہانِ ظفر کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔ نشانِ ظفر میں قبلہ حکیم صاحب کے خاندانِ نوشاہیہ ، آبائو اجداد ، مولدو مسکن یعنی ساہن پال شریف کے بارے میں بنیادی معلومات رقم کی گئی ہیں۔ اس کے ذیلی عنوانات میں خاندانِ سِلسلہ نوشاہیہ کی دینی و تبلیغی خدمات اور علمی و ادبی خدمات کا محاکمہ قابل داد ہے۔ ’’عرفان ظفر‘‘ میں ان کی ولادت سے وصال تک کے حالات و واقعات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ اس حصے کا ضمنی عنوان مثلاً سال ولادت و وفات کی ذیل میں کئی ادبی اور سیاسی مشاہیر کے واقعات ، قیام پاکستان کی تاریخی معلومات اور فخر نوشاہیت اقبال کی خدمت میں، تحقیقی اعتبار سے خاصے کی چیزیں ہیں۔ مصنف نے دیانتداری اور غیر جانبداری سے واقعات کو سلیقہ مندی اور علمی انداز میں پیش کر دیا ہے۔ ’’جہان ظفر‘‘ میں حکیم صاحب کے قریبی رشتہ داروں ، عقیدت مندوں ، شاگردوں ، دوستوں اور دیگر متعلقین کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔ ’’نقوش ظفر: میری نظر میں‘‘ سید مہدی حسن نوشاہی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اُردو گورنمنٹ زمیندار پوسٹ گریجویٹ کالج میں لکھتے ہیں۔ ’’مصنف کو علمی ذوق وراثت میں ملا ہے اور ان کی سیرت و شخصیت میں قبلہ حکیم جی کی حکمت و دانائی کے دیرپا اثرات کے ساتھ ساتھ سید شرافت نوشاہی کی علمی و ادبی وجاہت خوش بیانی ، عجزو انکسار اور صوفیانہ رکھ رکھائو کی عکس ریزیاں ہمہ گیر انداز میں نظر آتی ہیں۔ فخر نوشاہیت سے نسبی اور قلبی وابستگی کی وجہ سے وہ اس موضوع کے بارے میں متفرق یادداشتوں کو ایک عرصے سے جمع کر رہے تھے۔ تاہم باقاعدہ قبلہ حکیم جی کے وصال کے بعد شروع کی اور اپنی عقیدت و محبت کے گل ہائے رنگارنگ ’’نقوش ظفر‘‘ کی شکل میں پیش کر دئیے ‘‘ مصنف سید شفیق الرحمان نوشاہی ’’پیش لفظ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’کتاب کے آخر میں ’نقوش ظفر‘‘ میں مذکورہ اشخاص ، مقامات اور کتب کا اشاریہ بھی دے دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ایک مخلص بندے کی شخصیت کو متعارف کرانے میں یہ کتاب کتنی جامع اور مکمل ہے اس کا فیصلہ تو قارئین ہی کر سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عزم و عمل کا روشن مینارہ ہونے کی حیثیت سے پذیرائی بخشے اور میرے لئے توشہ آخرت کے طور پر قبول فرمائے کیوں کہ فخرِ نوشاہیت محض مرے والد محترم ہی نہیں بلکہ میرے اُستاد مکرم اورمرشد گرامی بھی تھے‘‘ ۔
مجھ ناچیز کے لئے بھی یہ ایک اعزاز ہے کہ اُستاد محترم سید شفیق الرحمان نوشاہی نے کتابِ ھذا میں ’’میرے شاگرد میری پہچان‘‘ میں راقم کا ذکر بھی تفصیل کیا اور میری بارہ کتب کے نام بھی درج کئے ہیں۔ اُستادِ محترم کے یہ الفاظ ناچیز کے لئے حوصلہ افزا ہیں ۔ صفحہ نمبرپر لکھتے ہیں ’’اُردو کے لئے ان کی سرگرمیوں کے پیش نظر میں انہیں بابائے اُردو کا نائب سمجھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے علمی جوش و جذبہ کو مزید جلا بخشے اور انہیں اپنے مشن میں کامیاب فرمائے آمین‘‘ ۔