ایرک پرنس ظلم کا دیوتا

یہ ایک ایسے انسانیت کے قاتل کی داستان ہے جس کے کپڑوں پر دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے قتل کے چھینٹے ہیں جس کا دامن معصوم مسلمانوں کے خون سے سرخ ہے یہ بے رحم قاتل آخر ہے کون ،اگر آپ کو یاد ہوتو کچھ دن قبل کابل ائیر پورٹ پر ایک خود کش حملہ ہوا اس خودکش حملے کے نتیجے میں 175افراد موت کا شکار ہوگئے اور دو سوکے قریب لوگ زخمی ہوگئے،  اس ایئر پورٹ پر ہزاروں کی تعداد میں لو گ موجود تھے لوگوںپر خوف طاری تھا کہ اگر اکتیس اگست تک انہیں سیٹ نہیںملتی اور طالبان نے انخلاء پر پابندی لگا دی تو ان کا کیا ہوگا؟ اس قاتل کا ز کر کرنے سے قبل میں ذرا تاریخ پر نظر دوڑانا چاہونگا، اگر آپ کو یاد ہو تو چنگیز خان کے بارے میں ہم نے تاریخ میں پڑھا اور سنا ہے اس نے جنگوں کے دوران دو کروڑ افرادکو بے رحمی سے قتل کرد یا تھا،چنگیز خان کے بعد اس کا پوتا ہلاکو خان جس نے بغداد پر حملہ کیا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجاد ی،ہلاکو خان کے بعد ہم تیمور لنگ کے بارے میں پڑھتے ہیں جس نے 54علاقوں کو فتح کیا، اور جس شہر کو وہ فتح کرتا تھا وہاں کی پوری آبادی کو قتل کرنا وہ اپنا فرض سمجھتا تھا اور اس بے رحمانہ رویئے کہ ساتھ شہر کو بھی آگ لگا دیتا تھا ، تیمور لنگ نے کئی بار کھوپڑیوںکے مینار بنائے اس کے بعد ظالمو ں کی فہرست میں ہم نے پڑھا کہ سلطنت مغلیہ کے بادشاہ کس طرح ایک دوسرے کے بیٹوں کو قتل کرتے رہے پھر اس کے بعد ہم نے سلطنت عثمانیہ میں دیکھا کہ ایک بادشاہ نے اپنے 19بھائیوں کو قتل کردیا، شایدآپ کو یقین نہ آئے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس کے منہ پر خون لگا ہووہ کسی کا بھی سرقلم کرنے سے پہلے کچھ نہیں سوچتا،یہ واقعات صدیوں پر محیط ہیں ،لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ اکیسویں صدی کے اس دور میں جب انسان علم کی رفعتوں کو چھور ہا ہوگا ، ہم اسی طرح کے ایک ایسے ظالم انسان کو اپنے سامنے دیکھیں گے جو ظلمات کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈز توڑنے کے باوجودحکومتی پروٹوکول میں پھرتا ہے جسے انسانی قتل کا پرمٹ خود سرکار جاری کرتی رہی ، یہ شخص امریکہ میں رہتا ہے اورحالیہ دنوں میںاپنے چارٹرڈ طیاروں کے زریعے افغانستان سے لوگوں کا انخلاء کر رہا تھا اس وقت جب ساری انسانیت اس بات کے لیئے پریشان تھی کہ لوگ اطمینان سے اپنے گھروں کو چلے جائیں محفوظ ہو جائیں یہ شخص اس وقت بھی پیسے بنا رہا تھا، جب لوگ اس خوف کے عالم میں کابل ایئر پورٹ پر موجو د تھے اور دھماکے کے بعد پریشان تھے تو یہ شخص فی آدمی چھ ہزار پانچ سو ڈالر طلب کر رہا تھا لوگوں سے گویااگر ایک خاندا ن کے چار افراد ہیں تو یہ 26ہزار ڈالر طلب کر رہا تھا ، جو کہ پاکستانی 43لاکھ روپے بنتے ہیں اس شخص کو انسانی زندگی سے زیادہ ڈالرز سے پیار ہے اور دولت کے اس پجار ی کا نام ہے ایرک پرنس ، یہ امریکہ کے بد نام زمانہ تنظیم بلیک واٹر کا سربراہ اور خالق ہے اس نے 1997میں اس تنظیم کی بنیاد امریکہ کے شہر نارتھ کیرونا میں رکھی1998میں امریکہ کا سب سے بڑا ٹریننگ سینٹر بنایا ، اور اس ٹریننگ سینٹر میں اس نے مختلف ایجنسیز کے سابق عہدیدار ، سی آئی کے سابق عہدیدار اور سابقہ فوجیوں کے ایک بڑی تعداد کو بھرتی کیا اور انہیں کمانڈوز کی ٹریننگ دی، گویا ایک پرائیویٹ فوج تشکیل دیدی اور اپنے آپ کو ایک سیکورٹی کمپنی کے نام سے متعارف کروایا اور اپنی خدمات امریکہ کو دیدی ، امریکی حکومت نے اس تنظیم بلیک واٹر کی خدمات سب سے پہلے 2003میں عراق جنگ کے دوران حاصل کی، ان کو اکیس ملین کا ایک معاہد ہ دیا گیا جس کے تحت یہ اتحادی افواج کے سربراہ اور کچھ اہم تنصیبات کی حفاظت ان کے ذمے لگائی گئی، اور اس کے بعد پھر انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا 2008تک یہ وہاں موجود رہے اور ان پانچ سالوں کے دوران یہ نہ صرف امریکی سفارتخانوں اور امریکی سفیروں کی حفاظت کرتے رہے بلکہ یہ امریکی فوج کے شانہ بشانہ اس جنگ کا حصہ بن گئے اورپھر عراق میں انہو ںنے ظلم کی نئی نئی داستانوںکورقم کیا، عراق کے خلاف جنگ میں چار لاکھ ساٹھ ہزار عراقیوں کو ہلاک کیا گیا جس میں لاتعدا د بچے، بوڑھے نوجوان اور عورتیں شامل ہیں، اور اس پورے ظلم کا سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ جب 2001میں یہ جنگ ختم ہوگئی تو امریکہ اور برطانیہ نے تسلیم کر لیا کہ وہاں ڈسٹرکشن کا اسلحہ موجود نہیں تھا یہ محض ایک غلط فہمی تھی لیکن اس غلط فہمی کے چکر میں ان ظالموں نے چار لاکھ ساٹھ ہزاربے گناہ عراقیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اور ان پانچ سالوں میں بلیک واٹر ظلم کی ایک مشین بنی رہی انہوںن ے بے تحاشالوگوں کو قتل کیا حتی کہ 2004میں بغداد کے چوک میں انہوں نے سترہ بے گناہ لوگوں کو قتل کردیا اس دوران ان پر بہت لعن طعن بھی ہوئی ان پر بہت مقدمات بھی ہوئے لیکن ایرک پرنس کا کوئی کچھ بھی نہ بگاڑ سکا وہ آج بھی ایک آزاد شہری کی طرح امریکی میں موجود ہے،اس ظالم شخص نے امریکی حکومت سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کمائے یہ ہی وجہ ہے کہ امریکا کہ سو امیر ترین شہریوں میں اس کا نمبر88ہے ،امریکا نے اس شخص کر دنیا بھر میں استعمال کیا، اریک پرنس کی خدمات امریکی سی آئی اے لیبیا میں حاصل کی گئی لیبیا میں کرنل قذافی کے خلاف سیاسی مشکلا ت کھڑی کروانا اور اس کو اقتدار سے نکلوانا اور پھر بعدازاںقتل کرنے میں سی آئی نے بلیک واٹر کو استعمال کیا اور وہاں بھی یہ لوگ ایک مشن مکمل کر کہ آئے لیبیا کے بعد تیسرے مسلمان ملک کے لیئے امریکہ نے ان خدمات حاصل کیں، جیسے ہی امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا فورا ہی ایرک پرنس نے افغانستان کا دورہ کیا اور عراق اور لیبیا کے طرح افغانستان جنگ میں بھی یہ لوگ امریکی فوج کا حصہ بن گئے ، افغان جنگ میں 2500امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور چار ہزار کنٹریکٹر ہلاک ہوئے یہ بلیک واٹر کے فوجی تھے اس جنگ میں پچاس ہزار افغان شہری اور 66ہزار افغانی فوجی ہلاک ہوئے ، ظلم کی وہ داستان جو عراق سے شروع ہوئی اس کی انتہا انہوں نے افغانستان میں کی اور جب بیس برس کے بعد امریکہ کو ایک ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اس ہی طرح بلیک واٹر کو  ذلیل و خوار ہونا پڑا لیکن جیسے ہی انخلا کا سلسلہ شروع ہوا اور انہوں نے چارٹرڈ فلائٹس چلائیں تو جاتے جاتے بھی افغان شہریوں اور غیر ملکیوں کا خون انہوں نے ایسے ہی چوسنا شروع کیا جس طرح میں نے بتایا کہ انخلا کے وقت ایئر پورٹ سے جاتے ہوئے لوگوں سے 6500ڈالرز طلب کیے،بلیک واٹر ایک سیکورٹی ایجنسی کے نام پر متعارف کروائی گئی لیکن درحقیقت یہ قاتلوں کی ایک تنظیم ہے جنہوںنے مسلمان ممالک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا، چائنہ کی واحد حکومت ہے جس نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ جنگ میں جس نے جنگی جرائم کیے ہیں ان کے خلاف ایک کمیشن بنایا جائے اور ان پر مقدمہ بنایا جائے ہم سمجھتے  ہیںکہ یہ بہت ہی مناسب اور برحق مطالبہ ہے چین کا بلکہ پوری عالمی برادری کو اس کا مطالبہ کرنا چا ہیے اور ایک کمیشن بننا چاہیے جو ان تمام جنگی جرائم کی تحقیقات کرے اور جو ذمہ دار ہیں ان کو عالمی عدالت میں لے جایا جائے اور ان کو قرار واقع سزا دی جائے جس میں بلیک واٹر کاسربراہ ایرک پرنس بھی شامل ہو ۔

ای پیپر دی نیشن