حیات قائدؒ کے درخشندہ اصول

قول اور فعل میں مطابقت ایک ایسی خوبی ہے جو انسان کو معاشرے میں قابل اعتماد‘ عظیم اور ہر دل عزیز بنا دیتی ہے‘ جبکہ قول اور فعل میں تضاد رکھنے والے کو سخت ناپسند کیا جاتا ہے۔ ایسا شخص کہیں عزت نہیں پاتا۔ یہ لوگوں کی نظروں سے گر جاتا اور دلوں سے اتر جاتا ہے کسی شخص کی عظمت کا یہ بہت بڑا ثبوت ہے کہ وہ جو کہے‘ وہ کرے۔ چنانچہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ایک ایسی صاحب عظمت شخصیت تھے جن کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔ آپ 25 دسمبر 1876ء کو پیدا ہوئے اور 11 ستمبر 1948ء  کو وفات پائی۔ آپ کی پوری زندگی نیک نیتی‘ دیانت داری‘ ثابت قدمی‘ بلند حوصلگی‘ اصول پسندی‘ بلند کرداری‘ خود اعتمادی‘ خود داری اور بے خوفی پر مبنی ہے آپ ایک ذہین‘ محنتی‘ شریف‘ حاضر جواب‘ روشن دماغ‘ بیدار مغز‘ سحر انگیز اور نہایت متاثر کن انسان تھے۔ 
ہندوؤں کی تنگ نظری اور انگریزوں کی چالبازی کا مقابلہ کرنے والے بہترین سیاسی لیڈر اور قومی رہنما تھے‘ آپ نے کام‘ کام اور بس کام کی تلقین کی اور ایمان‘ اتحاد‘ نظم کا نعرہ دیا۔ آپ بابائے قوم تھے  لہٰذا پوری قوم کو چاہئے کہ آپ کے پُر حکمت فرمودات اور سبق آموز واقعات سے کچھ سیکھے‘ کچھ سمجھے۔ خاص طور پر ہمارے آج کے سیاست دان اورمختلف شعبوںکے قائدین غور کریں کہ انہوں نے اپنے رہبر کی سیاست اور قیادت سے کیا درس حاصل کیا ہے یا کیا درس حاصل کر سکتے ہیں۔ انہیں ضرور سوچنا چاہئے۔ ذیل میں قائداعظم کے قول و فعل کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے۔ بلاشبہ ان فرمودات اور واقعات کی روشنی میں ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ضُعف کو قوت میں ‘ مایوسی کو اُمید میں اور ناکامی کاکامیابی میں بدل سکتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔ 
قائداعظمؒ فرماتے ہیں ……
-1 وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر اس ملت کی عمارت اُستوار ہے؟  وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس اُمت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟  وہ رشتہ‘ وہ چٹان‘ وہ لنگر خدا تعالیٰ کی کتاب قرآن مجیدہے۔ 
-2 میں نے قانون کی تعلیم کے لئے دوسرے ادارے کی بجائے لندن کی درسگاہ ’’لنکزان‘‘  کا انتخاب اس لئے کیا تھا کہ اس کے دروازے پر دنیا کے عظیم قانون دانوں کی فہرست میں نبی کریم ؐ کا نام بھی شامل تھا۔ 
-3 آزادی کا مطلب  بے لگام ہو جانا نہیں‘ آزادی سے آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ آپ ایک منظم و منضبط قوم کی طرح کام کریں۔ 
-4تعلیم پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ تعلیمی میدان میں مطلوبہ پیش رفت کے بغیر ہم نہ صرف اقوام عالم سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہمارا نام و نشان ہی صفحہ ٔ  ہستی سے مٹ جائے۔ 
-5 میں پاکستان کے ہر مسلمان مرد اور عورت سے کہتا ہوں کہ وہ اس ملک کی تعمیر کریں تاکہ ہم اقوام عالم میں اپنے لئے ایک معزز مقام پیدا کر سکیں۔ 
-6      Failure is a word unknown to me     (ناکامی میرے لئے ایک نامعلوم لفظ ہے) 
   اب قائداعظمؒ کی زندگی کے کچھ خوبصورت واقعات دیکھئے۔
-1 پاکستان کی پہلی کابینہ کا اجلاس تھا اس اجلاس میں قائداعظمؒ بھی موجود تھے اے ڈی سی گل حسین نے قائداعظم سے پوچھا‘ سر اجلاس میں چائے پیش کی جائے یا کافی؟  قائداعظمؒ نے چونک کر سر اٹھایا اور فرمایا یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئے؟ اے ڈی سی گھبرا گیا۔  قائداعظمؒ نے فرمایا جس وزیر نے چائے کافی پینی ہے وہ گھر سے پی کے آئے یا پھر گھر واپس جا کر پیئے‘ قوم کا پیسہ قوم کے لئے ہے وزیروں کے لئے نہیں۔ 
-2 ایک دفعہ قائداعظمؒ  ایک مقدمے کے سلسلے میں آگرہ تشریف لے گئے لیگ کے کارکنوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے قائداعظمؒ سے ملاقات کی اور ایک جلسے کا پروگرام ترتیب دے کر ان سے تقریر کی درخواست کی‘ مگر قائداعظمؒ نے معذرت کی‘ کارکنوں نے وجہ دریافت کی تو فرمایا ’’میں یہاں اپنے مؤکل کی طرف سے پیش ہونے آیا ہوں‘ جس کی وہ فیس ادا کر رہا ہے میں خیانت کیسے کروں؟ آپ جلسہ کرنا چاہتے ہیں‘ ضرور کریں بعد میں بلا لیں میں اپنے خرچ پر آ جاؤں گا‘‘۔ 
-3ایک مرتبہ دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا جلسہ ہو رہا تھا‘ ایک شخص نے نعرہ لگایا ’’شہنشاہ پاکستان زندہ باد‘‘ قائداعظمؒ خوش ہونے کے بجائے خفا ہوئے اور کہنے لگے ’’دیکھئے حضرات‘ آپ لوگوں کو اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ پاکستان میں کوئی بادشاہ نہیں ہو گا‘ وہ مسلمانوں کی مملکت ہو گی‘ جہاں سب مسلمان برابر ہوں گے‘‘۔ 

ای پیپر دی نیشن