تاریخ اگر افغانستا ن کو بادشاہتوں کا قبرستا ن لکھتی ہے تو پھر درست ہی لکھتی ہے کیونکہ دنیا میں رونما ہونے والے مختلف واقعات تاریخ کی اس سچائی کی شہادت دیتے ہیں مثال کے طور پربہت پہلے افغانستان میں داخل ہونے والا برطانیہ کبھی بھی افغانستان کو فتح نہ کر پایا بلکہ اس کے سارے فوجی ہی مارے گئے اس کے بعد روس افغانستان میں مداخلت کر کے اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے اور پھر ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے اور حال ہی میں امریکہ شکست اور شرمندگی کے زخم لیکر افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوا ہے یاد رہے اپنے اپنے وقت پر برطانیہ ،روس اور امریکہ اس وقت کی سپر پاورز تھیں جب انہوں نے افغانستان پر حملہ کیا لیکن جب افغانستان سے شکست کھا کر یہ ممالک نکلے تو ان کی سپر پاور کی حیثیت ختم ہو چکی تھی جیسا کہ آجکل ہم امریکہ کا انجام دیکھ رہے ہیں جس کی تصدیق برطانوی وزیر دفاع نے یہ کہہ کر دی ہے کہ آج کی دنیا یونی پولر نہیں بلکہ ملٹی پولر ہے یعنی اب دنیا میں طاقت کا ایک مرکز امریکہ نہیں ہے بلکہ دنیا میں طاقت کے بہت سارے مراکز وجود میں آچکے ہیں جن میں آپ روس اور چین کو بھی شامل کر سکتے ہیں ۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کا بہانہ بنا کر امریکہ نے افغانستان پر جو حملہ کیا اس کے نتیجے میں امریکہ کے ناصرف 20سال ضائع ہوئے بلکہ کئی ہزار بلین ڈالرز بھی خاک میں مل گئے اس کے علاوہ ہزاروں امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے جبکہ بے شمار امریکی فوجی آج بھی مختلف ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوکر ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں اس بے مقصد جنگ پر اٹھنے والے اخراجات اتارنے کے لیے امریکی قوم کو سن 2050تک کئی کھرب ڈالرز ان جنگی ہتھیاروں کی کمپنیوں کو ادا کرنے پڑیں گے جن سے سود پر ادھار لیکر ہتھیار خریدے گئے اور بے گناہ افغانوں پر کارپٹڈ بمباری کی گئی اس پوری جنگ کے دوران اگر کسی کو فائدہ ہوا ہے تو وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جو جنگی ہتھیار بناتی ہیں اور انہی کمپنیوں نے ہی امریکہ کو اس جنگ میں دھکیلا تھا جس کی تفصیلات اب امریکی قوم اور پوری دنیا کے سامنے آچکی ہیں کہ کس طرح امریکہ اور دنیا کو ان کمپنیوں نے بے وقوف بنا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔
آج کی صورتحال یہ ہے کہ امریکہ اپنی واحد عالمی طاقت کی حیثیت کھو چکا ہے اس کا اتحادی نیٹواب امریکہ پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جبکہ یورپی یونین اپنی فوج بنانے جا رہی ہے امریکہ کے اتحادی ممالک اب آہستہ آہستہ اس سے دور ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ 1945کے بعد امریکہ آج تک کوئی ایک جنگ بھی نہیں جیتا بلکہ توہین آمیز طریقے سے شکست کھا ئی ہے بھلے وہ کوریا کی جنگ ہو ،ویتنا م کی جنگ ہو ،عراق کی جنگ ہو ،لیبیا یا شام کی جنگ ہو یا افغانستان کی جنگ ہو اس لیے اب امریکہ کے اتحادی اس کے جنگی جنون سے عاجز آچکے ہیں اور امریکی قیادت کو بھی اس کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر چین کے صدر سے ماضی قریب کے جارحانہ رویوں کے برعکس اب منتیں ترلوں پر اتر آیا ہے اور 90 منٹ کی ٹیلی فونک کال کے ذریعے چین سے مختلف معاملات پر مدد کی درخواست کی ہے لیکن چین بھی امریکی کمزوریوں کو بھانپ چکا ہے اس لیے صدر شی نے جوبائیڈن کو کھری کھری سنائی ہیں اور امریکہ اور چین کے ممکنہ تصادم کو پوری دنیا کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے چین نے آگے بڑھتے ہوئے اپنے ایک بیان میں امریکہ سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ افغانستان میں امریکہ نے انسانی حقوق کی جو پامالی کی ہے اور لوگوں کا جوخون بہایا ہے افغان قوم کو امریکہ اس کا معاوضہ ادا کرے ۔
افغانستان میں اگرچہ سب سے برا حال امریکہ کا ہوا ہے لیکن چیخیں بھارت کی بھی نکل رہی ہیں کیونکہ بھارت کی ناصرف افغانستان میں کی گئی 3ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ڈوب گئی ہے بلکہ اس کے درجنوں کونسل خانے بھی اب بند ہو گئے ہیں جو را کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر کام کر رہے تھے جہاں پاکستان دشمن گروہوں کو تربیت اور وسائل فراہم کیے جاتے تھے جن میں ٹی ٹی پی اور بے ایل اے خاص طور پر قابل ذکر ہیں طالبان کے آنے کے بعد اب پاکستا ن کی مغربی سرحدیں محفوظ ہو چکی ہیں اس لیے پاکستان نے اپنی تمام توجہ مشرقی سرحدوں پر مرکوز کر دی ہے جس پر بھارت شدید پریشان ہے اس کے علاوہ افغانستان پر امن ہوجانے کے باعث چین کا سی پیک کا منصوبہ وسطی ایشیائی ممالک تک جانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے جبکہ چین افغانستان میں موجود اربوں ڈالرز کے گیس ،تیل اور دھاتیں نکالنے کے منصوبے بھی شروع کرنے جا رہا ہے روس بھی پاکستان کے قریب آچکا ہے اور افغانستان کے ذریعے اب سنٹرل ایشیائی ممالک پاکستان کے ذریعے پوری دنیا سے جڑنے جا رہے ہیں یہ ایک ایسی تصویر بننے جا ری ہے جس پر امریکہ ،بھارت اور اسرائیل شدید تکلیف میں ہیں لیکن انسان کیا کر سکتا ہے قدرت کا اپنا انتظام ہے قدرت سورج کو مسلسل حرکت میں رکھتی ہے جس کے باعث قوموں کی تقدیریں بھی بدلتی رہتی ہیں امریکہ افغانستان میں رسوا ہوا ہے تو قدرت نے پاکستان ،روس اور چین کے لیے نئے امکانات کی دنیا پیدا کر دی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان ان مواقع سے کس طرح فائدہ اٹھاتا ہے ؟