کراچی (کامرس رپورٹر) آل سٹی تاجر ایسوسی ایشن رجسٹرڈ کے چیئرمین محمد شرجیل گوپلانی جو ان دنوں بیلاروس کے کاروباری دورے پر ہیں، نے کراچی کی عوام اور تاجروں کے لٹنے اور قتل ہونے پر سندھ سرکار کے ناقص اقدامات پر غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس یا نا اہل، کراچی کے شہری تمام تر ٹیکس ادا کرنے کے باوجود چوروں، ڈاکوئوں، لٹیروں اور رہزنوں کے رحم و کرم پر ہیں، ہم سندھ حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکوت ایک ہفتے میں ان جرائم کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو عوام اور تاجروں کے ساتھ مل کر احتجاج کی کال دیں گے۔ایک بیان میں محمد شرجیل گوپلانی نے کہا کہ کراچی میں اس وقت امن و امان کی صورتحال انتہائی بد تر ہوچکی ہے، چوری، ڈکیتی، رہزنی، منشیات فروشی، اسٹریٹ کرائمز کا جن بے قابو ہوچکا ہے، اداروں کی نااہلی، پولیس میں جرائم پیشہ افراد اور جرائم کی سرپرستی کرنے والوں کی موجودگی، پولیس میں سیاسی بھرتیوں کے باعث قابو سے باہر ہے اور پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے،کراچی کی پولیس میں پروفیشنل اسکل ٹریننگ کی کمی ہے، اس کے علاوہ تھانوں کی سطح پر پولیس کے رویہ کے باعث عوام اپنی جائز شکایات کے لیے بھی تھانوں کا رخ نہیں کرتی اور پولیس عوام دوست یا مددگار سمجھے جانے کے بجائے خوف کی علامت بنی ہوئی ہے،جب کہ پولیس کے اعلیٰ افسران اصلاحات کے بجائے سب اچھا ہے اور نفری کی کمی ہے، کی گردان کرتے نظر آتے ہیں۔شرجیل گوپلانی نے مزید کہا کہ کراچی میں جرائم کے اعداد و شمار کے حوالے سے سب سے مستند ادارے سی پی ایل سی کے ہوش ربا اعداد شمار امن و امان کے حوالے سے پولیس اور حکومت سندھ کے دعوئوں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں، کراچی میںسی پی ایل سی کے اعداد و شمار کے مطابق جون 2022 سے اگست 2022 تک تین ماہ میں 13050 موٹر سائیکلیں چوری ہوئیں اور 1299 چھین لی گئیں جبکہ 557 کوبازیاب کرایا جس کا تناسب 4 فیصد سے بھی کم ہے، موبائل فون تین ماہ میں 7433 کی تعداد میں چھین لئے گئے جبکہ 136 ریکور ہوئے۔ریکوری کا تناسب 2فیصد سے بھی کم ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ تعداد ہے جو رپورٹ ہوئی، اس سے کئی گنا تعداد میں موبائل چھینے گئے لیکن پولیس کی ناقص کارکردگی کے باعث اور پولیس کے رویہ سے تنگ ہونے کے باعث عوام رپورٹ ہی نہیں کرتے۔ تین ماہ میں 140 افراد اپنی جان سے گئے۔ تین ماہ میں 31 کاریں چھینی گئیں اور 478 چوری ہوئیں جبکہ 149 ریکور ہوئیں تناسب 31فیصد رہا۔ لوٹ مار چوری رہزنی کا ریکارڈ ہی نہیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے لوگوں کی جان و مال گھر میں، بازار میں، کسی تقریب میں، سفر میں غرض کہیں بھی محفوظ نہیں، لوٹ مار کے دوران بے خوفی سے لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے، کراچی کے تاجر اور عوام خوف کی فضا میں ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں،کراچی کی مظلوم عوام کے لئے نہ تو عدالت سو موٹو لے رہی ہے ، نہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ہی نہ کوئی سیاسی جماعت بولنے کو تیار ہے، سندھ حکومت کے کسی اقدام سے محسوس نہیں ہوتا کہ اسے کراچی سے کوئی دلچسپی ہے نہ ہی اسے اپنی آئینی ذمہ داری کا احساس ہے جس کے تحت شہریوں کے جان و مال کی زمہ داری سندھ حکومت کی ہے،نہ ہی وفاقی حکومت کو ٹیکس کی وصولی کے علاوہ کراچی کے حالت زار کی کوئی فکر ہے۔ محمد شرجیل گوپلانی نے مزید کہا کہ کراچی میں اگر امن قائم کرنا ہے تو شہر میں ایمرجنسی نافذ کرکے کومبنگ آپریشن کیا جائے خاص طور پر کچی آبادیوں افغان بستی وغیرہ میں،تمام غیر قانونی مقیم باشندوں خاص طور پر افغانیوں کو شہر سے باہر نکالا جائے جن کے جرائم میں ملوث ہونے کی ہم بار بار نشاندہی بھی کر رہے ہیں اور ویڈیو ثبوت بھی بھیج رہے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی، کچرا چننے والے افغانیوں کا ڈیٹا مرتب کیا جائے اور ان کے رات کے اوقات میں شہر میں گھومنے پر پابندی لگائی جائے توشہر کے آدھے جرائم ختم ہوجائیں گے اورحکومت بلا تاخیر سیف سٹی کے منصوبے پر عمل کرے۔چیئرمین آل سٹی تاجر ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ اگر حکومت سندھ اور سندھ پولیس شہر میں امن قائم کرنے میں سنجیدہ ہے تو کراچی کے عوام اورتاجروں سے رابطے بہتر بنائے،پولیس کا نظام مضبوط کرے اور مندرجہ بالا تجاویز پر فوری عمل کرے، غیر قانونی اسلحہ ضبط کرے اور کراچی چیمبر اور اچھی شہرت کی حامل کاروباری تنظیموں کی سفارش پر تاجروں کو اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ کے لائسنس جاری کرے۔ انہوں نے کے الیکٹرک کی جانب سے حد سے زیادہ لوڈشیڈنگ پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اس کی وجہ سے بھی ایک تو کاروبار تباہ ہوگیا ہے دوسرے ڈکیتیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہم کے الیکٹرک کے ذمہ داران کو بھی ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہیں کہ وہ ناجائز لوڈشیڈنگ نہ کرے، اگر اس نے اپنے معاملات درست نہ کئے تو عوام اور تاجروں کے ساتھ مل کر احتجاج کی کال دیں گے۔