”رہتا نہیں ہے وقت سدا ایک سا کبھی۔۔۔“

راقم کا گذشتہ دنوں مقبرہ جہانگیرسے گزر ہوا۔میرا دل ماضی کی اس یادگار پرکچھ وقت گزارنے کا کررہا تھا۔میںماضی کے جھروکوں اور تاریخ کی کتاب کی ورق گردانی کرنا چاہ رہا تھا۔پر افسوس صد افسوس۔۔۔وہاںپر جوحال دیکھاراقم بتانے سے قاصر ہے، زبان اور کیفیت ساتھ نہیں دے رہی۔ لاہور کے مضافات میں دریائے راوی کے کنارے شاہدرہ کے باغ دلکشا میں واقع مقبرہ جہانگیر مغلوں کی سب سے حسین یادوں میں سے ایک ہے، جو مغلیہ سلطنت کے عظیم بادشاہ سلیم نورالدین جہانگیر کا مدفن ہے۔اس عظیم یادگار کو دیکھ کر اور یہاں آکر نوجوانوں کی گمراہی کو دیکھ کر افسوس ہی ہے بس۔۔۔وہ نوجوان جن کوخود کوماضی میں لے جاکر تلوار اٹھا کر،مہابلی۔۔۔انار کلی۔۔۔۔۔ حدادب کے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں۔ وہ بلااٹھا کرگیند کوگھما کر عمارت کی تاریخی حیثیت سے اس قدر بے پروا ہیں کہ چشم تصور میں گھنٹیاں بجنے لگیں۔۔۔شاہی لباس میں ملبوس ایک شخص حاضر ہوا۔ اس نے سر پرجنگی شاہی ٹوپی کی بجائے سپورٹس کیپ پہنی ہوئی تھا اور ہاتھ میںتلوار کی بجائے بلا تھا۔۔۔چشم تصور کو جھٹکا اور واپس اسی دنیا میں آگیا جہاں من چلے اپنی ہی دھن میںمگن تھے۔ساتھیو میںا پنے ذہن کو جھٹک نہیں پایا۔مجھے یوں لگا جیسے شہزادہ سلیم بھی۔۔۔۔؟میری خاموشی اور سوالیہ نشان سے آپ سمجھ گئے ہوں گے میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔
دوستو مدعا یہ ہے کہ مغل بادشاہ جہانگیر کی آخری آرمگاہ مقبرہ جہانگیر نشئیوں ، آوارہ نوجوانوں، اوباشوں کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ حکام کی عدم دلچسپی اور سہولیات کے فقدان کے باعث فیملیوں نے سیرگاہ کا رخ کرناچھوڑدیا ہے۔مقبرہ کی انتظامیہ بے بس ہوکررہ گئی ہے۔ پورادن نوجوان آوارہ گردی کرتے یا کرکٹ سمیت دیگر کھیل کھیلتے ہیں۔ پیدل چلنے والوں کی بجائے نوجوان دن بھر موٹر سائیکل دوڑاتے ہیں ، گیٹ پر موجود محکمہ آثار قدیمہ کے چوکیدار نوجوانوں اور نشئیوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں اگر یوں کہوں کہ وہ بے بس ہیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ مقبرہ جہانگیر میں ان حالات کے باعث فیملیوں نے تفریح کی غرض سے آنا چھوڑ دیا ہے جبکہ غیر ملکی سیاح مہنگی ٹکٹ خرید کربغیر دورہ کیے ہی دروازے سے واپس لوٹ رہے ہیں۔اس بارے میں انتظامیہ کاکہنا تھا کہ متعدد بار مقامی پولیس اور پولیس کے اعلی افسران کو مراسلے بھجوا چکے ہیں تاہم کوئی امداد فراہم نہیں کی گئی۔افسوس صد افسوس۔۔۔زبان خاموش،قلم رک گیا۔۔الفاظ احساس اور جذبات سے عاری۔۔۔لیکن مسئلہ ایسا کہ اگر قلم نہ اٹھایا تو دل میں”درد“ سا اٹھے گا کہ اہل قلم نے حق ادا نہیںکیا۔
سیاحت کی صنعت ایک بہت بڑی صنعت ہے جس پر جتنی توجہ دی جائے اتنی ہی کم ہے۔ ابھی تاریخ و آثارقدیمہ کو محفوظ کرنے کے لیے بہت سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جیسے لاہور میں بند پڑے بہت سے مقبرے حکومتی توجہ کے متقاضی ہیں۔آمدن کے لحاظ سے سب سے نفع بخش فیملی سیاحت سمجھی جاتی ہے۔ جب پورا خاندان مل کر کہیں تفریح کے لیے جاتا ہے تو وہ سب سے زیادہ رقم خرچ کرتا ہے۔لیکن مقام افسوس ہے مقبرہ جہانگیر کی حالت جوانتظامیہ کی بے بسی اور لاپرواہی کا رونا رو رہی ہے۔
سیاحوں کی حفاظت ،رہنمائی، رہائش، سیرو تفریح کے لئے مناسب انتظامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان مقامات کا رخ کرسکیں لیکن ایسا نہیں ہورہا۔ہمارے ملک میں جب کوئی غیر ملکی آتا ہے توکچھ مقامی تو ان کو ایسے دیکھتے ہیں کہ اس کے لئے الفاظ نہیں مل رہے اور لوگ تو ان کو زیادہ کرایوں سے لوٹنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کے ساتھ ٹورسٹ گائیڈ بھی ضرور ہونے چاہئیں، وہ چاہے متعلقہ ادارے کی طرف سے ہوں یا پرائیویٹ،تاکہ غیرملکی سیاآحوں کی رہنمائی ہوسکے۔
مغل شہنشاہ جہانگیر، جن کے عدل و انصاف کے چرچوں سے مغل تاریخ بھری پڑی ہے۔ تاہم مدعا اس وقت فن تعمیر کاشاہکار عمارت نہیں بلکہ اس جیسی بہت سی تاریخی عمارات کی بحالی اور تزئین وآرائش اہم ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچنے کے وہ سارے لوازمات رکھتا ہے۔ ہمیں اپنی تہدیب و روایات اور تاریخی عمارتوں کی حفاظت کے لئے کوئی نہ کوئی اقدام کرنا چاہیے تاکہ انہیں باقی رکھا جا سکے۔ 
بقول شاعر
رہتا نہیں ہے وقت سدا ایک سا کبھی
خستہ عمارتوں کی تو عظمت تلاش کر
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...