پاکستان دہشت گردی کے خلاف دو تین دہائیوں سے جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان نے تاریخ ساز قربانیاںدی ہیں۔فوجی جوانوں سمیت70ہزار سے زائد پاکستانی جانوں کے علاوہ اربوں ڈالر کا نقصان اٹھاچکے ہیں۔پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی اور خطرناک جنگ لڑی گئی اور یہ جنگ پاکستان نے اپنے وسائل سے لڑی ہے اور لڑ رہا ہے۔گزشتہ کئی مہینوں سے پاک افغان سرحد پر دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس میں سرحد پار سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان کے اندر کارروائیوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔حکومت پاکستان بارہا افغان حکومت سے سرحدی علاقے کو محفوظ بنانے کی درخواست کر چکی ہے مگر اس کے باوجود حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔دیدہ دلیری کی انتہاءیہ ہے کہ مسلح عناصر ہماری سکیورٹی پوسٹوں پر بھی حملے کر رہے ہیں جبکہ ماضی میں زیادہ تر کارروائیاں دہشت گردی پر ہی مبنی تھیں اور چھپ کر حملے کئے جاتے تھے۔ اس طرح کی دیدہ لیری دہشت گردوں کے خطرناک عزائم کا پتہ دیتی ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ اب ہماری شمال مغربی سرحد محفوظ ہوگئی ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔طالبان حکومت نہ صرف ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے بلکہ وہ انہیں پناہ بھی دیئے ہوئے ہے۔ طالبان حکومت میں ٹی ٹی پی کے ہمدردوں کی وجہ سے سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اورسکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری جانب بھارت کی پالیسی بھی اینٹی پاکستان ہے، اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں‘ تنازعہ کشمیر نے حل تو کیا ہونا تھا بھارت نے اس تنازعہ کو مزید گہرا کردیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت بند ہے۔بیک ڈور رابطوں کے بھی مثبت نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں۔بھارت میں جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے اور نریندر مودی وزیر اعظم بنے ہیں پاکستان کے بارے میں بھارتی پالیسی جارحانہ ہوگئی ہے۔ بھارتی حکومت کے منفی کردار کی وجہ سے پاکستان بھارت کے افغانستان میں کسی بھی قسم کے کردار کا مخالف رہا ہے۔ پاکستان‘ بھارت کے ساتھ تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتا ہے مگر بھارتی حکومت ”میں نہ مانوں“ کی ہٹ دھرمی پر قائم اور پاکستان کو مسلسل عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے دوبارہ فعال ہونے کے بعد حکومت پاکستان‘ سکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کو ہمہ وقت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔
سرحد پراکیس بیس کلو میٹر علاقہ کے علاوہ باڑ لگا کر پوری طرح محفوظ بنانے کے باوجود افعانستان سے سکیورٹی فورسز پر حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اب بھی پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں اور پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی ضمانت پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان ‘سکیورٹی فورسز اور حساس اداروں کو افغانستان سے دہشت گردوں کے حملوں کے پس پردہ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ایسی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ ان واقعات کا ابتداءہی میں قلع قمع کیا جاسکے، بلا شبہ تنازعات کا حل یقینا مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے مگر جب دہشت گرد عناصر امن کی زبان سمجھنے کے لئے تیار نہیں تو پھر ان مٹھی بھر عناصر کو انہی کی زبان میں جواب دینے کی اشد ضرورت ہے۔دہشت گردوں اور ان کے ہمدردوں کا جتنا جلدی ممکن ہوسکے قلع قمع کیا جائے۔انٹیلی جنس اداروں کو دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لئے بھرپور وسائل مہیا کئے جائیں‘ اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ بہترین انٹیلی جنس وہ ہوتی ہے جو خطرے کو بر وقت بھانپ لے اور خطرے کے امکانات پیدا ہوتے ہی خطرہ پیدا کرنے والوں کا سر کچل دے۔
قومی سلامتی کے اداروں نے پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی(را) ایک بار پھر افغانستان میں اپنے پنچے گاڑنے کی کوشش کر رہی ہے، ان حالات میں پاکستان کے لئے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی کے مملکت ِ خدادادِ پاکستان کے خلاف مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لئے دہشت گرد تنظیموں کے مصالحت پسند عناصر کے ساتھ بات چیت کی کوشش کرے۔تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ایک نہیں کئی دور ہو چکے ہیںجن میں سے چند ایک بارآور ثابت ہوئے اور بعض اس لیے ثمر بار نہ ہو سکے کہ درمیان میں کچھ ایسی شرائط سامنے آگئیں جو قابلِ قبول نہ تھیں، فی الوقت یہ مذاکرات جمود کا شکار ہیں اور اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی کی قیادت نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ ختم کردیا ہے۔
ہمارے لئے یہ بات یقینا فخر و انبساط کا باعث ہے کہ عساکر پاکستان نہ صرف ملک کی سلامتی‘ سالمیت اور خود مختاری کے حوالے سے درپیش بیرونی چیلنجوں سے بھی ملک کی دفاعی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق عہدہ برا ہوتی ہیں بلکہ ملک کے اندر عدم استحکام پیدا کرنے کی ملک دشمنوں اور ان کے ایجنٹوں کی سازشوں کو بھی ناکام بنانے کے لئے آئین کے تقاضوں کے مطابق ہمیشہ ٹھوس اور مو¿ثر کردار ادا کرتی ہیں، پاک فوج نے پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشیں کرنے والے نادیدہ عناصر کو سرحدوں پر بھی اور ملک کے اندر بھی ہمیشہ ہزیمتوں سے دوچار کیا ہے اور ان کے مذموم عزائم کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔ہماری سکیورٹی فورسز اپنے سپہ سالار کی قیادت میں آج بھی جنوبی وزیرستان، خیبر پختونخوا، فاٹا اور ملک کے دوسرے مختلف حصوں میں پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھنے والے دہشت گردوں سے برسر پیکار ہیں اور ملک میں دہشت گردی کے ناسور کے خاتمہ کی کارروائیوں میں سرخرو ہورہی ہیں۔خدا کرے کہ طالبان حکومت ہوش کے ناخن لے۔