پاکستان میں دہشت گردی  افغان حکومت کے خلاف  دو ٹوک مو¿قف اختیار کیا جائے 


پاک افغان بارڈر کے قریب دہشت گردوں کی اطلاع پر سی ٹی ڈی نے کارروائی کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ سی ٹی ڈی کے مطابق دہشت گرد ضلع خیبر میں داخل ہوکر بڑی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں میں اکرام اللہ‘ مرسلا خان‘ ارشاد اور ایک نامعلوم دہشت گرد شامل ہے۔ دہشت گردوں سے 3 کلاشنکوف‘ 12 میگزین‘ 2 دستی بم‘ 3 درجن کارتوس ملے۔ دہشت گردوں کا تعلق کالعدم تنظیم داعش سے ہے۔ تین دہشت گرد تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واپس افغان بارڈر کی طرف فرار ہو گئے۔
افغانستان سے پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیاں جس طرح پھر سے شروع ہو گئی ہیں‘ ان سے افغان حکومت کی پاکستان کے بارے میں معاندانہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ گزشتہ برس جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اس کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے‘ لیکن اس کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے افغانستان میں رہتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیں۔ اب پھر جو دہشت گرد سی ٹی ڈی کی کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں‘ وہ بھی افغانستان ہی سے آئے تھے۔ چنانچہ جو دہشت گرد زندہ بچ گئے‘ وہ رات کی تاریکی میں واپس افغانستان کی طرف فرار ہو گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں کا پاکستان کے خلاف متحرک ہونا ہماری سلامتی کیلئے چیلنج ہے۔ اب پاکستان کی طرف سے افغانستان کو اس سلسلے میں رسمی احتجاج کرنے کے بجائے واضح اور دو ٹوک انداز میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔ ان دہشت گردوں کو یقینی طورپر بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہوگی۔ بہتر ہے کہ حکومت پاکستان یہ معاملہ اقوام متحدہ میں بھی اٹھائے جس کا افغانستان بھی ایک رکن ہے اور افغان حکومت کو اس پلیٹ فارم سے انتباہ کیا جائے کہ وہ ہمسایہ ملک کے خلاف اپنی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے سے روکے اور دہشت گردوں کے خلاف ضروری اقدامات کرے۔

ای پیپر دی نیشن