لاہور نگری داتا دی

لاہور جن کی نسبت سے داتا کی نگری کہلاتا ہے، ان کا نام علی بن عثمان ہجویری لاہوری رحمتہ اللہ علیہ المعروف داتا صاحب ہے، داتا گنج بخش کے 979 ویں سالانہ عرس کی 3 روزہ تقریبات اختتام پذیر ہوئیں مگر آپ کے مزار مبارک پر بارہ مہینے 30 دن 24 گھنٹے میلے کا سماں ہوتا ہے تقریبا ًہر وقت لوگوں کا یہاں پر آنا جانا لگا رہتا ہے ۔پاکستان میں یہ واحد دربار ہے کہ جس کے اوپر ہر روز عقیدت مندوں اور مرادوں کی جھولیاں بھر کر لے جانے والوں کا ایک ہجوم ہوتا ہے اور ہر جمعرات کو عام طور پر ایک میلے کا سماں ہوتا ہے۔ لوگ یہاں اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔ دلوں اور روحوں کی بھوک بھی مٹائی جاتی ہے۔ داتا دربار جیسی رونق کم کم کہیں ہوگی۔ آپ نے اپنی روحانی بلندیوں کی ایسی روشنی پھیلائی تھی کہ دنیا اور آخرت کی تمنائیں یہاں جمع ہوگئی ہیں۔ جتنے غریب، نادار اور حاجت مند لوگ یہاں سے فیض یاب ہوتے ہیں، انہیں لنگر بھی ملتا ہے اور روحانی غذا کی بھی فراوانی بھی یہاں ہے۔ اب اس داتا کی نگری لاہور میں ہو یہ رہا ہے کہ وہاں پر ناقص مضر صحت لنگر بنا کر بیچنے والوں کی درجنوں دکانیں کھل چکی ہیں ۔ محکمہ اوقاف محکمہ خوراک پولیس اور مقامی انتظامیہ نے اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ رکھی ہیں یاد رہے کہ داتا صاحب دربار سے ملحقہ علاقوں کو ایک اور شرف یہ بھی حاصل ہے یہاں دور دراز کے شہروں سے آئے ہوئے مزدور طبقہ کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداددو وقت کا کھانا اور آرام کے لئے داتا صاحب کے دربار کے علاقہ کا انتخاب کرتے ہیں ان لوگوں کو کئی کئی گھنٹے قطار میں لگ کر ان دوکانوں سے یہ لنگر حاصل کرنا پڑتا ہے یہ دکاندار بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ اس قسم کی کھانے پینے کی اشیاءبلا خوف و خطر بانٹ رہے ہوتے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔اس کے علاوہ اس دوران کار اور موٹر سائیکل کی پارکنگ والے عرس کی تین روزہ تقریبات کے دوران سال بھر کی روٹیاں کما کر لے جاتے ہیں ان غیر قانونی پارکنگ والوں نے مختلف سڑکوں کے اوپر اپنا قبضہ جما رکھا ہوتا ہے ۔افسوس کے ساتھ سرکار نے یہاں پر بھی آنکھیں بند کر رکھی ہوتی ہیں اور ساتھ ہی جیب کتروں اور نوسربازوں کی بھی چاندی ہوتی ہے جو یہاں پر آنے والے زائرین کی جیبوں کی صفائی کے ساتھ نوسربازی کے واقعات میں بہت سے لوگوں کو نشہ آور اشیاء کھلا کر ان کی جیبوں کا بھی صفایا کردیا جاتا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...