وزیراعظم میاں شہباز شریف بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی سے ملاقات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ ملک کے موجودہ سیاسی حالات انہیں ہمسایہ ملک کے ہم منصب سے براہ راست ایسے رابطوں سے روک رہے ہیں۔ بھارت کے حوالے سے وزیراعظم کی یہ پالیسی بہرحال قابل تعریف ہے۔ چونکہ بھارت کے ساتھ تعلقات، بات چیت یا کسی بھی قسم کے ڈائریکٹ، ان ڈائریکٹ رابطے کے لیے ایک سے زیادہ چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ بھارت کی طرف سے بھی اگر پاکستان سے رابطہ کرنا ہو تو وہ تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہیں اور بالخصوص عسکری قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ پاکستان میں سیاسی قیادت عمومی طور پر ان چیزوں کو نظر انداز کرتی ہے جس وجہ سے سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ اس تاریخ کو دیکھا جائے تو وزیراعظم میاں شہباز شریف کا نریندرا مودی سے دور رہنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ ویسے بھی بھارت نے اور بالخصوص نریندرا مودی کی حکومت نے کشمیریوں پر جو ظلم کیا ہے اس کے بعد بھارت سے گرم جوشی کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی، کشمیری عوام کو قیدی بنا کر رکھ دیا ہے، کشمیریوں کو اپنے ہی گھروں میں جیل جیسی زندگی کا سامنا ہے، دو ہزار انیس سے آج تک نہ وہاں مذہبی آزادی ہے نہ نقل و حرکت کی آزادی ہے نہ ذرائع ابلاغ آزاد ہیں، نماز پڑھنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، امام بارگاہیں محفوظ نہیں ہیں، مسلمانوں کے لیے عید کی نماز پڑھنا بھی مشکل ہو چکا ہے ان حالات میں پاکستان کے وزیراعظم کیسے بھارت کے ساتھ گرم جوشی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر ترکیہ، چین، روس، آذربائیجان اور ازبکستان کے سربراہان مملکت سے ملاقاتیں کی ہیں لیکن بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے ملاقات کرنے سے گریز کیا ہے۔ باخبر دوست بتاتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نریندرا مودی کے ساتھ بات چیت سے اجتناب کیا۔ ایک وفاقی وزیر کے مطابق وزیراعظم پاکستان اگر بھارتی ہم منصب سے ملاقات کرتے تو ایک ایشو بن جانا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی میاں شہباز شریف یہی پالیسی اپنائیں گے۔ میاں صاحب کو ناصرف اس پالیسی پر سختی سے کار بند رہنا چاہیے بلکہ انہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھارت کے کشمیریوں پر مظالم کو بے نقاب کریں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ بھارت کشمیر میں کیا کر رہا ہے، بھارتی مظالم کسی سے ڈھکے چھپے تو ہرگز نہیں لیکن پھر بھی ایک ایسی جگہ جہاں آپکی آواز تاریخ کا حصہ بنتی ہے وہاں دور حاضر کے سب سے بڑے المیے پر حقائق دنیا کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ناصرف کشمیر بلکہ فلسطین کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو بھی دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے۔
پاکستان ہر طرف سے مسائل میں گھرا ہوا ہے، سیلاب نے ہماری مشکلات اور مسائل میں اضافہ کیا ہے، ہم سیاسی اور معاشی طور پر بھی عدم استحکام کا شکار ہیں ان حالات سے نمٹنا کچھ آسان نہیں لیکن مشکلات ہی انسان کو بہتر زندگی اور سخت فیصلوں کے لیے تیار کرتی ہیں۔ وزیراعظم اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہو چکے ہیں روانگی سے قبل بھی انہوں نے سیلاب کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل پر گفتگو کی ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ کروڑوں افراد کو آئندہ موسم سرما میں کمبل کی ضرورت ہے۔ کروڑوں افراد امداد کے لیے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ چند الفاظ کسی بھی شخص کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ صرف تصور کریں کہ سخت سردی میں سیلاب سے متاثرہ ہمارے بہن بھائی کھلے آسمان تلے ہوں گے تو ہم کیسے چین کی نیند سو سکتے ہیں۔
امریکی رکن کانگریس شیلا جیکسن نے سیلاب متاثرین کی صورتحال پر امریکی ایوان نمائندگان کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں حد نگاہ پانی ہی پانی ہے سیلاب کا پانی نکلنے میں چھ ماہ سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ انہوں نے سیلاب متاثرین کی فوری مدد کیلئے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کے اس تاریخی موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کہتے ہیں کہ "میاں شہباز شریف نے رونے کے علاوہ کوئی پلان نہیں دیا۔ آئی ایم ایف معاہدے کے باوجود معیشت نہیں سنبھل رہی اور روپیہ مستحکم نہیں ہو رہا۔ سیاسی توازن کا ٹھیک ہونا بہت ضروری ہے، اگر صورتحال خراب ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری پی ٹی آئی پر نہیں ہو گی، دو ہفتوں میں فائنل کال دے دی جائے گی۔" فواد صاحب کو سیاسی توازن کی فکر ہے لیکن ساتھ ہی ان کی جماعت سیلاب کے باوجود ملک بھر میں جلسے کر رہی ہے اور وہ سیاسی توازن کا تقاضا بھی کر رہے ہیں۔ اگر ان کی جماعت جلسوں سے نکل آتی ہے تو کیا سیاسی توازن پیدا نہیں ہو گا۔ سیاسی قیادت کا یہی المیہ ہے کہ جب ان کی حکومت ہوتی ہے تو سب اچھا ہوتا ہے اور جب حکومت ختم ہو جاتی ہے تو سب الٹ نظر آنے لگتا ہے۔ سیاسی توازن کے لیے اگر حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہیں اپوزیشن بھی اس کی اتنی ہی ذمہ دار ہے۔
وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر نے دعویٰ کرتے ہیں کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ لندن میں نواز شریف کے مشورے سے کریں گے۔ اب انہیں کون سمجھائے اگر پی ٹی آئی والوں کو سمجھ نہیں آتی تو خرم صاحب نے کون سا بل گیٹس کی عقل والی بات کی ہے۔ کیا ضرورت ہے ایسے موضوع کو چھیڑنے کہ جب آپ جانتے ہیں کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے ایک بڑی سیاسی جماعت اور اس کے ووٹرز کے جذبات ایسے دعووں کے متصادم ہیں۔ آپ جو کرنا چاہتے ہیں کریں لیکن ایسی باتوں کو عوامی سطح پر چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے؟؟؟
شہباز شریف نریندرا مودی سے دور دور!!!!!
Sep 18, 2022