آدمی کو میسر نہیںانساں ہونا 

ایک بوڑھی نے دربار خلافت میں شکایت کی کہ میرے گھر میں کیڑے مکوڑے نہیں ہیں ۔یہ سن کر  دربار میں بیٹھے لوگ حیران رہ گئے کہ یہ کیسی شکایت ہے؟ مگرخلیفہ رسول حضرت عمر فاروق ؓ  نے  گھر کا پتہ پوچھا، کہا آج ہی آپ کی شکایت رفع کر دی جائے گی ۔یہ سن کربوڑھیگھر روانہ ہو گئی ۔آپ نے حکم دیا  عورت کے پہنچنے سے پہلے اس کا گھر کھجوروں ،شہد ، جو  اور زیتون سے بھر دو ۔حیرت سے دیکھنے والی آنکھوں سے فرمایا سنو جس گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو وہاں کیڑے مکوڑوں کا کیا کام ؟ جہاں اس عورت کی فصاحت کو داد دینے کو جی چاہتا ہے  تو وہاں  خلیفہ المسلمین کی فراست کو بھی سلام کرنے کو دل بے تاب ہو جاتا ہے ۔اس دور میں کوئی تعلیمی ادارے نہ تھے مگر بات کرنے کا سلیقہ وہ لوگ رکھتے تھے ۔ آج کے دور میں بڑی بڑی یونیورسٹیاں ہیں مگر یہ انہیں کچھ سکھا نہیں سکے ۔ ہمارے درمیان ایک پی ایچ ڈی  (سکالر ) ہے جس نے  امریکہ کی یونیورسٹی  سے ڈگری لے رکھی ہے  وہاں پروفیسری کی جاب چھوڑ کر پاکستان آئے ۔اس کی کارکردگی کو  دیکھ کر مقبول جماعت کے لیڈر نے اسے  اپنا’’ چیف آف سٹاف بنا لیا‘‘ ۔  اس کا کام اپنے سیاسی مخالفین پر طنز کر نا، پولیس افسران ،سول بیوروکریسی  لیڈرون کو مطعون کرنا تھا ۔لوگ پوچھتے کہ یہ کون ہے؟ ۔ بتایا جاتا کہ یہ  امریکی یونیورسٹی وے وابستہ پروفیسر صاحب ہیں ۔ لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے کہ تعلیم کا معیار اتنا گر چکا ہے ؟  انہی  پروفیسر صاحب نے حال ہی میں پانچ ہفتوں کا ایک’’ شارٹ کورس ‘‘اڈیالہ جیل سے کیا ہے ۔کہا جاتا  رہا ہے کی اب یہ پروفیسر صاحب پہلے جیسا نہیں بولیں گے ۔ اگر بولے بھی تو پہلے سوچیں گے پھر تولیں گے اور پھر بولیں گے ۔ انہوں نے اپنے کردار سے  ملک کا کیا نقصان کرنا تھا ۔اصل نقصان تو  امریکہ کا  کر دیا کہ وہاں پی ایچ ڈی ( سکالرز)  اور پروفیسروں کا یہ حال ہے ۔ پاکستانی والدین کا  اپنے بچوں کو اعلی علیم کے لئے امریکہ جانے کا شوق اسے دیکھ کر پورا ہو چکا ہے ۔وہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایکسفورڈ کا پڑھا ہوا ہے ۔   یہ خامی ان کے لیڈر میں بھی ہے  جوبغیر سوچے سمجھے  بات کر دیتے ہیں  ۔سمجھ نہیں آ رہی کہ  بیرون ملک میں پاکستانیوں کے لئے الگ قسم کے تعلیمی ادارے  ہیں ۔جن سے  ان جیسے  ڈگریاں حاصل کرتے ہیں ۔پھرپروفیسر بنتے۔ اس کا گراف چند دلوں میں آسمان  کو بھی چھونے لگاجس سے ان پروفیسر صاحب کا انداز بدلنے کی ضرورت پیش آئی لہذا کچھ ہفتے جیل  میں رہے ۔اب آزاد ہیںآزادی کے بارے میں کہا جاتا ہے سات سمندر پارکی  ایک اہم شخصیات کی وجہ سے انہیں رہائی ملی  ۔اب کہا جاتا ہے کہ اس کی رہائی کا اثر ان کی جماعت  کے لیڈر میں دیکھنے میں آئے گا   ۔وہ مکھن سے بال کی طرح اس کیس سے نکل جائیں گے… بابا کرمو  سے کہا میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ   عام آدمی کے حالات کیسے بدلیں گے   ۔ سچ کہا بابا جی  نے
  خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
 نہ ہو جس کو  نہ ہو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا   
 دودھ فروش پہلے دودھ میں پانی ڈالتا تھا پھر اس نے پانی میں دودھ ڈالنا شروع کیا ۔ اب وہ کیمیکل سے دودھ بنا رہا اور پلا رہا ہے ۔  سر کاری سکولوں ،سرکاری اسپتالوں اور قبرستانوں کا بھی برا حال ہے ۔اب تو انصاف کے لئے تھانوں میں جانا کوئی پسند نہیں کرتا۔ اب شہری  اپنے فیصلے طاقت کی بنیاد پر خود کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پڑھے لکھے ڈبل لا گریجویٹ  وکلا بھی کسی سے پیچھے نہیں  ۔ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں لکھاجاتا  تو عدالت میں ہی   مار دھاڑ شروع کر دیتے ہیں ۔  اب تو جنگل کا قانون نافذ لگتا ہے ۔  ہمارے مذہب کو غیر مسلم پڑھ کر اسلام سے متاثر ہوتے ہیں  اور ہمارے کردار کو دیکھ کر   ہم سے نفرت کر تے ہیں کوئی بزنس کرنا پسند نہیں کرتا ۔ پڑوسی ملک جو غیر اسلامی ہے  وہاں  فلاحی کام ہو رہے ہیں  ۔ وہاں خوف خدا کئی کئی نظر آتا ہے ۔ دہلی میں تین سو یونٹ کے گھر وں سے بجلی کا بل نہیں لیا جاتا ۔ پانی کا بل کسی سے نہیں لیتے ۔ تما م خواتین بچیوں کی پبلک ٹرانسپورٹ فری ہے ۔ کوئی کرایہ نہیں لیا جاتا ، سرکاری سکولوں اسپتالوں کا  معیار تعلیم  پرائیویٹ اداروں سے کئی بہتر ہے اب پرائیویٹ اسکولوں میں نہیں جاتے   ۔ اسی طرح  علاج کیلئے سرکاری اسپتالوں میں جانا پسند کرتے ہیں ۔  دہلی کے موجودہ وزیراعلی نے یہ سب کچھ کر دکھا یا ہے ۔ اس نے بتایا کہ ہمارے ہی ایک سیاسی لیڈر نے  اسی عہدے  پر رہ کر اپنا پرائیویٹ جہاز خرید لیا تھا جبکہ میں نے اسی پیسے سے دہلی کے ا سکولوں کالجوں اور اسپتالوں کی حالت زار بدل دی ہے   ۔ اسکے لئے مجھے کوئی نئے فنڈ لینے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی ۔ کالجوں میں ہر اسٹوڈنٹ کو ہر ماہ دو ہزار دئے جاتے ہیں کہ اس سے طالب علم  خود بزنس کر ے ۔پھروہ  اکیلا یا چار پانچ دوست مل کر کوئی بزنس شروع کرتے ہیں ۔ بزنس کے ذریعے  وہ  نئے نئے طریقہ ایجاد کر رہے ہیں ۔ خود پڑھ بھی رہے ہیں اور گھر والوں کی مالیی مدد بھی کر رہے ہیں   جب یہ اسٹوڈنٹ ڈگری لے کر نکلیں گا تو وہ نوکری کی تلاش میں نہیں ہوگا ۔ وہ اپنا بزنس کرے گا ۔بتایا کہ ایک اچھی ٹیم کی بدولت یہ سب کچھ کرنے میں کامیاب ہوا ہوں ۔ ہمارے ہاں جتنا جھوٹ حکمران بولتے ہیں ، شہری ان سے بھی کئی زیادہ 
جھوٹ بولتے ہیں ۔جس سے برکت ختم ہو چکی ہے۔ حکمران جانے کا رونا روتے ہیں آنے کا نہیں بتاتے کہ انہیں کون کیسے اقتدار میں لایا تھا ۔عرض ہے  قوم کو کبھی سچ بھی بتا دیا کریں ۔الیکشن الیکشن کی رٹ لگا رکھی ہے۔ پنجاب اور کے پی کے کی حکومتیں آپ کی   ہیں ۔یہ انہیں ختم کردیں الیکشن کی راہ ہموار ہو جائے گی ۔ مگر ایسا  نہیں کرتے ؟کیا ان کا  کام ملک میں افراتفری پھیلانا ہی رہ گیا ہے ۔سیاست دان کبھی کبھی ایجنڈے سے ہٹ کر بھی کام کر لیا کریں۔ اﷲ انہیں اور ہم سب کو  ہدایت دے ، آمین

ای پیپر دی نیشن