مملکت خداداد کا بین الاقوامی شخص مجروح ہو رہا ہے

 فر حا ن علی
farhan_ali702@yahooc.om
مملکت خدا داد ہزاروں مسلمانوں نے قر بانیاں دے کر حاصل کیا لیکن اس وقت اسلامی جمہوریہ پا کستان کرپشن و بدعنو انی کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔ اس کرپشن و بدعنو انی کے با عث مملکت خداداد کا بین الاقوامی سطح پر امیج خراب ہو رہا ہے جبکہ دوسری جانب یہ بڑھتی ہوئی کرپشن و بدعنوانی میں ملک میں پیدا ہو نے والے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال میں بھی اہم کردار کر رہی ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی کرپشن و بدعنو انی سے ملک میں قانون کی پاسداری ختم ہوتی جا رہی ہے جس کی بڑی وجہ ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سب سے زیا دہ کرپشن اور بدعنوانی پائی جاتی ہے۔ اس کرپشن و بدعنوانی کے باعث بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ خراب ہو رہی ہے جبکہ پاکستان میں دن بدن بڑھتی ہوئی کرپشن سے ملکی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہونے کے ساتھ ساتھ اداروں کا وقار بھی مجروح ہو رہا ہے۔ جس کی مثال حال ہی میں ایف بی آر نے اربوں روپے کے ٹےکس چوری کے ایک مےگا سکینڈل میں ملوث ادارے کے تین افسروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا ہے۔ کلےکٹرےٹ آف کسٹم اسلام آباد میں تعینات گریڈ 16 کی افسر انسپکٹرسحرش نذےر، ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم انٹیلیجنس اسلام آباد میں تعینات انسپکٹر عثمان علی اور آپریزمنٹ پشاور میں تعےنات انسپکٹر عزیز الرحمن کو ملازمت سے برطرف کیا گیا۔ انکوائری کا یہ معاملہ 2020ءسے چل رہا تھا جس کے حقائق کے مطابق کسٹم انٹیلی جنس نے جون 2020ءمیں اے ایف یو ائرپورٹ اسلام آباد پر چھاپہ مارا تھا اور اس چھاپے میں موبائل فون، گھڑیاں اور دوسرا سازو سامان برآمد کیا، اس پر ایک انکوائری کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے تحقیق کی تحقیقات کے دوران یہ سامنے آیا کہ کسٹم انٹیلیجنس نے جو کنسائنمنٹ پکڑی ہے اس کے علاوہ 80 ایسی کنسائنمنٹ بھی موجود ہیں جو اس عرصے کے دوران کلیئر کی گئی تھی۔ یہ تمام کی تمام کنسائنمنٹ آغا خان فاو¿نڈیشن کے نام تھی اور انہیں ہیلی کاپٹر پارٹس کے طور پر ڈکلیئر کیا گیا تھا، ان کنسائنمنٹ کی کلیرنس میں کوئی ٹیکس اور ڈیوٹی ادا نہیں کی گئی جب فاو¿نڈیشن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تحریری طور پر بتایا کہ انہوں نے ایسی کوئی کنسائنمنٹ درآمد نہیں کی ہیں اور ان کا نام غلط طور پر استعمال کیا گیا ہے، کلئر نگ اےجنٹ کے ساتھ ملی بھگت سے کنسائنمنٹ کو بغیر کسی ڈےوٹی ٹےکس لئے جانے دےا گےا اور اس سے قومی خزانے کو قریبا6ارب 75کروڑ(پونے سات ارب) روپے کا نقصان ہوا۔ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ سکینڈل کسٹم اہل کاروں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس تحقےقات کے نتیجے میں مذکورہ 3 آفسروں کے نام سامنے آئے تھے جن کے بارے میں یہ ثابت ہو گیا تھا کہ ان آفسروں نے اپنی سرکاری ذمہ داری کو پورا نہیں کیا، سامان کو’ وی باکس سسٹم ‘کی بجائے ’ ون کسٹم سسٹم‘کے ذریعے کلیئر کیا گیا جو پوری طرح خودکار نہیں تھا اور اس میں مینول طریقے سے بھی کچھ کام ہوتا تھا، ان آفسروں نے سامان کو جانے دیا اور اس کے لیے طریقہ کار کی قطعی پیروی نہیں کی، ان آفسروں کو جواب کا موقع دیا گیا تاہم وہ اتھارٹیز کو مطمئن نہیں کر سکے، مجاز اتھارٹی نے ان کا موقف سننے کے بعد ان کی برطرفی کا حکم جاری کیا۔سرکاری اداروں کے حکام عوام کےلئے قوانین بناتے ہیں لیکن ان قوانین کی خود پاسداری نہیں کرتے جس سے لاقانونیت پھیلتی ہے جس کے مجاز افسران ہیں جو خود ہی عوام قانون میں مو جو د کمزرویو ں کے متعلق بتاتے ہیں اور چند پیسوں کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں۔ ٹرانسپر انسی انٹرنیشنل نے کر پشن پر سیپشن انڈکس 2022ءتحت دنیا کے 180ممالک کی درجہ بندی کی ہے۔ کر پشن پر سیپشن انڈ کس(سی پی آئی) 2022ءکے مطا بق دنیا کے زیادہ تر ممالک کرپشن روکنے میں نا کام رہے ہیں۔ سی پی آئی کے 2022ءکے سروے کے مطا بق پا کستان دنیا کے 180مما لک میں 140ویں نمبر پر ہے جبکہ پا کستان نے اس سروے میں 100میں سے 27نمبر حا صل کیے ہیں۔گلو بل کر پشن بیرومیٹر کے مطا بق پا کستان کے 35فیصد لو گو ں کی رائے ہے کہ پا کستان میں گزشتہ 12مہینو ں کے دوران کر پشن میں اضا فہ ہو ا تھا جبکہ گزشتہ 12مہینو ں کے دوران پا کستان کے 25فیصد لوگو ں نے پبلک سروس حاصل کرنے کےلئے رشوت دی تھی۔ بیرسٹر حسن رشید صدیقی نے کہا ہے کہ کرپشن پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کرپشن سے ملک کو ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ بدعنوانی وفاقی سطح سے لے کر مقامی سطح تک حکومتی اور نجی شعبے میں بھی پائی جاتی ہے۔ بدعنوانی کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ پلی بارگین کا قانون ہے۔ پلی بارگین استغاثہ اور ملزم شخص کے درمیان ایک قانونی معاہدہ ہے جس میں ملزم ہلکی سزا کے بدلے کم چارج میں جرم قبول کرنے پر راضی ہوتا ہے۔ بدعنوانی کے خلاف جنگ میں پلی بارگین ایک کارآمد ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے عدالتی نظام پر بوجھ کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور اس سے ایسے معاملات میں سزائیں سنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے جہاں مقدمے کی سماعت میں سزا ملنا مشکل ہو۔ تاہم، پلی بارگین کا بھی غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بدعنوان اہلکار اپنے جرائم کی سزا سے بچنے کے لیے پلی بارگین کا استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ اسے اپنے ساتھیوں کی حفاظت کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔انہو ں نے کہا کہ پلی بارگین کے قانون میں بہت سی خامیاں ہیں جن سے بدعنوان اہلکار فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، قانون استغاثہ سے ملزم کے خلاف تمام شواہد ظاہر کرنے کا تقاضا نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملزم فرد جرم قبول کرنے کے نتائج سے پوری طرح واقف نہیں ہے۔ بیرسٹر حسن صدیقی نے کہا کہ پلی بارگین کے قانون میں بدعنوانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کئی چیزیں کی جا سکتی ہیں۔ سب سے پہلے، قانون میں ترمیم کی جانی چاہیے تاکہ ان خامیوں کو بند کیا جا سکے جن کا بدعنوان اہلکاروں کے ذریعے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ دوسرا، استغاثہ کو پلی بارگین معاہدہ کرنے سے پہلے عدالت کی منظوری حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسرا، حکومت کو پلی بارگین کی مد میں ملنے والی رقم کو ہینڈل کرنے کے لیے زیادہ شفاف نظام بنانا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن