عنبرین فاطمہ
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے اپنے کیرئیر کا آخری فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کی جانب سے قومی احتساب بیورو(نیب) کے قانون میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ جمعے کو سنایا گیا یہ فیصلہ پانچ ستمبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔آخری سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’شارٹ اینڈ سویٹ‘ فیصلہ دوں گا۔ اس فیصلے میں چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے نیب ترامیم کے خلاف دائر کی گئی درخواست کو قابل سماعت قرار دیا گیا ہے۔ کیس کی سماعت کے لیے 15 جولائی 2022 کو تین رکنی خصوصی بینچ قائم کیا گیا تھا جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔ دو ایک اکثریت سے سنائے گئے اس فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ شامل ہے۔اس فیصلے کے حوالے سے سینئر صحافی کیا کہتے ہیں۔ صحافی عاصمہ چوہدری نے کہا کہ نیب ترمیم کا فیصلہ جو آیا ہے اس میں تین چار چیزیں جو مجھے سمجھ آرہی ہیں،وہ یہ کہ یہ فیصلہ تین رکنی ججز نے دیا ہے۔ ایک جج ریٹائرہو رہا ہے ایک کا اختلافی نوٹ ہے رہ گیا ایک۔اگر یہ فیصلہ ریویو میں جاتا ہے تو نئے چیف جسٹس کی صوابدید ہے وہ پانچ رکنی ، سات رکنی یا دس رکنی بینچ تشکیل دیں۔ اگر ریویو میں جاتے ہیں تو کون جائیگا؟ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ فیڈرل گورنمنٹ ایسا کر سکتی ہے؟ کیونکہ ان دنوںملک میں نگران حکومت ہے اور نگران حکومت کا یہ کام نہیں ہے، لیکن پھر بھی ریاست کا ایک سیٹ اپ ہوتا ہے وہ چلتا رہتا ہے۔ اگر فیڈرل گورنمنٹ ایسا کرتی ہے تو پھر وزارت قانون کی جانب سے ایک پیٹیشن جائیگی کہ نیب ججمنٹ کو کالعدم قرار دیا جائے۔ ریویو کیا جائے کیونکہ پارلیمان تو ان سیشن ہیں نہیں ، اور کیسز تو بہت سارے ہیں ساڑھے چار سو سے زیادہ کیسز ہیں، جن میں سیاستدان ، بیورو کریٹس ریٹائرڈ افسران ہیں۔ سپریم کورٹ نے تو کہہ دیا ہے کہ تمام کیسز سات دن کے اندر واپس نیب جائیںاور نیب ان کو احتساب عدالتوں میں بھیجے۔ یہ کیسز جیسے اور جس حالت میں بند ہوئے تھے اسی حالت میں ان کو کھولا جائے۔ دوسری طرف وکلاءکہتے ہیں کہ ا س فیصلے کا نفاذ ہو گا بھئی نفاذ کیسے ہو گا؟ 14مئی کو بھی تو سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ملک میں الیکشنز کروائے جائیں لیکن دو صوبوں کے الیکشنز نہیں کروائے گئے ، الیکشن کمیشن توہین عدالت کا مرتکب ہوا، کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب چیف جسٹس تو چلے گئے ہیں لیکن یہ بھی تو ساتھ ہی ہے نا کہ کچھ ان دیکھی قوتیں ہوتی ہیں جنہوں نے اپنا ہی ایک شکنجہ تیار کیا ہوتا ہے ، یہ سب الیکشنز مانگ رہے تھے انہوں نے ابھی الیکشنز کروانے نہیں تھے۔ عمران خان کو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے انہوں نے تو جیل میں اپنی ایکسرسائز مشینیں منگوا لی ہیں جو کھانا ان کو وہاں ملتا ہے وہ کھا لیتے ہیں، وہ ایڈجیسٹ کر گئے ہیں جیل میں۔مسئلہ تو ان کو ہے جو جیل جانے سے ڈرتے ہیں جیل جاتے ہیں تو ساتھ ہی بیمار ہوجاتے ہیں۔ کچھ بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں اور اب ایک نئی کھیپ باہر کے ملکوں میںجا رہی ہے۔جب سب ہی یہاں سے نکل جائیں گے تو پیچھے کون رہ جائیگا جو الیکشنز کا مطالبہ کریگا ؟۔اب جو صورتحال ہے وہ کافی دلچسپ ہے۔ عمران خان جیل میں بیٹھ کر بھی ان کے گلے پڑ گیا ہے۔ حالانکہ اس کے خود کے کیسز ہیں القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ میں نوے نوے دن کا ریمانڈ بھی ہے سینتالیس دن تو ویسے ہی عمرا ن خان کو جیل میں بیٹھے ہو گئے ہیں۔ ایک کا فیصلہ ہوتا ہے تو دوسرا کیس کھول لیا جاتا ہے۔ عمران خان کے جو ساتھ تھے جیسے علیم خان ، جہانگیر ترین ، پرویز خٹک یہ سب تو پہلے ہی عمران خان کو چھوڑ چکے ہیں لہذا عمران کا ان سے اب کیا تعلق یا ان کے کیسز کا عمران پر اب کیا پریشر ہے۔ مسلم لیگ ن نے نوازشریف کی واپسی کا شوشہ تو چھوڑ دیا لیکن ان کو پتہ نہیں تھا کہ فیصلہ اس طرح کا آنا ہے، مجھے تو لگتا ہے کہ عین ٹائم پر کہہ دیا جائیگا کہ نوازشریف نہیں آرہے ان کی بیماری کا بہانہ بنا لیا جائیگا، نوازشریف اگر واپس آتے ہیں تو ان کی گرفتاری کنفرم ہے۔ شہباز شریف ، آصف علی زرداری ، یوسف رضا گیلانی و دیگر سب کے کیسز کھل جائیں گے تو اگلہ منظر نامہ کافی دلچسپ بن جائیگا۔ یہ سب لیول پلئینگ فیلڈ مانگ رہے تھے لیں ہو گیا لیول پلئینگ فیلڈ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ جو صورتحال بننے جا رہی ہے اس کے بعد یہ سب اگلے الیکشن میں اکٹھے ہوں گے یا سب کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہوں گی۔ لیکن یہ میں ضرور کہنا چاہوں گی کہ اب الیکشن کو تو بھول ہی جائیں پاکستان کس ڈگر پر چلے گا یہ آنے والے دن ہی بتائیں گے۔
سینئر صحافی نسیم زہرہ نے کہا کہ نیب کی ترمیم کے خلاف عمران نے یٹیشن دائر کی تھی اور کہا تھا کہ پی ڈی ایم گورنمنٹ نے جو ترمیم کی ہیںان کو کالعدم قرار دیا جائے، چند ہی گھنٹوں میں اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے جسٹس عمر عطا بندیال نے ان کو کالعدم قرار دے دیا ہے ، گو کہ دو کا فیصلہ ہے اورایک کا اختلافی نوٹ ہے۔ اس فیصلے کےمطابق کیسز برقرار رہیں گے اور سات دنوں کے اندر ان کی ہیرنگ جہاں سے چھوڑی تھی وہیںسے شروع کی جائیگی۔ اب بات یہ ہے کہ جن کے خلاف کیسز کھولے جا رہے ہیں انہوں نے تو ان کیسز کی وجہ سے بہت عرصہ جیلیں کاٹی ہیں، اگر کسی کو لگ رہا ہے کہ فوری طور پر ان کو جیلوں میں ڈال دیا جائیگا تو ایسا نہیں ہو گا۔اب کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ زبردست ہو گیا اب چوروں کو جیلوں میں ڈالا جائیگا۔میں یہاں یہ سوال کرنا چاہوں گی کہ نیب کے حوالے سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کیا کیا نہیں کہہ چکے؟ کیا جسٹس کھوسہ نے یہ نہیں کہا تھا کہ نیب کی حیثیت ایک سیاسی ہتھیار کی ہے جو اپوزیشن کو سزا دینے کےلئے استعمال کیا جاتا ہے ،سندھ کے ایک جسٹس نے بھی نیب کے حوالے سے ایک کیس میں ایسے ہی ریمارکس دئیے تھے۔ لہذا نیب احتساب نہیں کرتا وکٹمائز کرتا ہے۔ جتنے بھی کیسز چلے ان میں جو یہ شہادتیں لیکر آئے وہ ناکافی ثابت ہوئیں ان کے پراسیکیوٹرز کو ججز سے ڈانٹ پڑ رہی ہوتی تھی کہ آپ کیا کررہے ہیں۔ بہت سارے سیاستدانوں نے جیلیں کاٹیں لیکن ثابت کچھ نہ ہو سکا۔ خود اسد عمر بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ نیب کی وجہ سے ملک کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اب یہ تو ایسا ہی ہے کہ چلو اب پی ڈی ایم کو سزا دیتے ہیں۔ یہ بات اور معاملہ آگے کس طرف جاتا ہے ریویو اپیل کس طرح ہو تی ہے یہ سب دیکھنا دلچسپ ہوگا۔میں یہ بھی سوچتی ہو کہ اگر احتساب کرنا ہے تو پھر ادارے کہاں ہیں؟کیا ادارے ختم ہو گئے ہیں؟ ایف آئی اے آئی بی کورٹس ان کے تحت احتساب کیا جائے۔ ایف آئی اے کس لئے ہے؟ صرف اس لئے کہ ایک دن اس کو پکڑو ایک دن اسکو پڑو پھر اگلے دن چھوڑ دو ایف آئی اے کا مس یوز ہو تا آیا ہے۔ بہرحال تفصیلی ججمنٹ آنے والی ہے نئے چیف جسٹس بھی منصب پر فائز ہو رہے ہیں دیکھتے ہیں کیا بنتا ہے۔
سینئر صحافی فریحہ ادریس نے کہا کہ یہ جو فیصلہ آیا ہے یہ حیران کن نہیں ہے۔ پہلے سے ہی اس فیصلے کے حوالے سے زہن سازی کر دی گئی تھی۔ایسے اشارے دے دئیے گئے تھے ، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ میں ایک ایسا فیصلہ دوں گا جس سے سب خوش ہوجائیں گے اور وہ فیصلہ شارٹ اینڈ سویٹ ہوگا۔ چیف جسٹس کے اس قسم کے بیان کے بعد سیاسی تجزیہ کاروں نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا جسٹس صاحب کو ایسے بیانات دینے چاہیں؟ پاکستان کو اس وقت احتساب کی بہت ضرورت ہے لیکن کئی سالوں سے میرٹ کا استحصال ہو رہا ہے ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جا رہا ہے، کوئی تو ہو جو اس ملک کی ترقی کی ذمہ داری اٹھائے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ملک میں کرپشن نہیں ہے کرپشن ہے سب ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیںایک گھن چکر میں ڈال دیا گیا ہے، نہ کسی کا حتساب ہوتا ہے نہ ہی کچھ ثابت ہوتا ہے بس دوسروں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیںاور اس سارے چکر میں لوٹرز بچ جاتے ہیں۔ہمارے ہاں احتساب کا نعرہ تو لگ جاتا ہے پکڑا دھکڑ بھی ہوتی ہے لیکن کلین چٹ بھی دے دی جاتی ہے اس طرح سے ملک نہیں چلتے۔ ہمیں اپنے ملک کے احتساب اداروں کو امپاور کرنا ہو گا جس جماعت کے احتساب کے بارے میں نعرہ لگتا ہے وہ کچھ عرصے کے بعد اقتدار میںا ٓجاتی ہے۔ نیب پرابلم کا باعث ہی بنا ہے ، میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے نیب سے ہی احتساب کروانا ہے ، آپ کے اس کے علاوہ کوئی سسٹم نہیں ، بھئی ہمارے پاس ادارے ہیں لیکن وہ امپاورڈ نہیں ہیں۔ ہم ایک گورکھ دھندے میں گھسے ہوئے ہیں احتساب کے نعرے سیاسی فوائد کے لئے لگائے جاتے ہیں۔ ہم اگر پاکستان کو آگے لیجانا چاہتے ہیں تو احتساب کرنا ہو گا اور اس کا طریقہ کار ویسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ مہذب معاشروں میں ہوتا ہے۔ ایک سیزن میں ایک کرپٹ ٹولہ بنا دیا جاتا ہے دوسرے سیزن کوئی دوسرا کرپٹ ٹولہ بنا دیا جارتا ہے لیکن زیرعتاب کوئی بھی نہیں آتا۔ میں اس فیصلے پر یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ چیف جسٹس نے اس فیصلے کے لئے ابھی کا وقت کیوں چ±نا؟ اتنے عرصے میں ایک حکومت آکر گھر چلی گئی کیوں نہ یہ فیصلہ پہلے کیا گیا ؟ آخری دن میں ایسا فیصلہ کیوں کر کے گئے؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کو ریورس کرنا مشکل ہو گا کچھ کا کہنا ہے کہ نئے چیف جسٹس ایکشن لے سکتے ہیں ریورس کر سکتے ہیں۔اب دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔