نگران حکومت جب سے وجود میں آئی ہے وہ مسلسل ایسے فیصلے کررہی ہے جن سے عوام کی پریشانیوں اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ صورتحال نگران حکومت میں شامل افراد کے لیے تو شاید کسی پریشانی کا باعث نہ بنے کیونکہ انھوں عوامی ووٹوں سے وجود میں آنے والی مستقل حکومت میں شامل افراد کی طرح عوام کے سامنے جانا ہی نہیں ہوتا لیکن اس سے ریاست کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ بہت گہرے اثرات چھوڑ جائے گا۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور ان کی کابینہ میں شامل افراد کے بیانات جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔ ان بیانات کو سن کر ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں کا اس ملک اور اس کے عوام سے کوئی تعلق نہیں، لہٰذا وہ اپنے بیانات کے ذریعے لوگوں کے زخموں پر مسلسل نمک چھڑک رہے ہیں۔ نگران حکومت تشکیل دینے والے مقتدر حلقے اگر ریاست کے ساتھ واقعی مخلص ہیں تو انھیں اس صورتحال کا نوٹس ضرور لینا چاہیے کیونکہ عوام اگر سول نافرمانی پر اتر آئے تو پھر کوئی بھی انھیں قابو نہیں کرسکے گا۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نگران حکومت کا پسندیدہ مشغلہ ہے، لہٰذا تقریباً ایک ماہ کے دورانیے میں پٹرول اور ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں بیس فیصد اضافہ کیا جاچکا ہے۔ اس سلسلے میں نگران حکومت نے مزید ستم یہ کیا ہے کہ پٹرولیم مارجن کی قیمتوںمیں اضافے کا بوجھ بھی عوام پر ہی ڈال دیا ہے۔ پٹرول پر فی لیٹر مارجن میں 88 پیسے کا اضافہ کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کے نام سے وفاقی حکومت نے عوام پر پہلے ہی ایک ایسا ناروا بوجھ ڈال رکھا ہے جس کا عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ پی ڈی ایل وہ ٹیکس ہے جو وفاقی حکومت حاصل کرتی ہے اور رواں سال یکم جولائی کو ہونے والے اضافے کے بعد سے پی ڈی ایل پچپن روپے فی لیٹر وصول کیا جارہا ہے۔ حکومت اگر واقعی عام آدمی کی مشکلات میں کمی کرنا چاہے تو پی ڈی ایل اور کسٹمز کی مد میں پٹرولیم مصنوعات پر جو رقم حاصل کی جاتی ہے اسے ختم کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ رقم عوامی فلاح کے کسی منصوبے پر تو خرچ ہوتی نہیں کہ عوام اس امید کے ساتھ اسے ادا کرتے رہیں کہ یہ واپس انھی کے پاس آ جائے گی۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتے ہی ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور دیگر اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہونا ناگزیر ہے، لہٰذا تین روز پہلے ہونے والے اضافے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹرز کی جانب سے 15 سے 20 فیصد تک کرایے بڑھا دیے گئے ہیں۔ ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد گاڑیوں کے سپیئر پارٹس بھی مہنگے ہو جاتے ہیں، کرایوں میں اضافہ کرنا مجبوری ہے ورنہ گاڑیاں بند کرنا پڑ جائیں گی۔ گڈز ٹرانسپورٹ کرایوں میں بھی 10 کلومیٹر پر 200 روپے کا اضافہ کردیا گیا۔ اضافے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ الائنس کے صدر ملک شہزاد اعوان نے کہا کہ پٹرول کی قیمت میں یکمشت 26 روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 17 روپے کا اضافہ عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ ادھر، ریلوے نے بھی کرایوں میں پانچ فیصد اضافے پر غور شروع کر دیا۔ مسافروں کا کہنا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کرائے بڑھنے سے غریب آدمی کی کمر ٹوٹ گئی۔
تاجر تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ادھر، ماہرین اقتصادیا ت کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی جو 0.25فیصدکمی سے سالانہ بنیادوں پر 26.27فیصد ہو گئی تھی وہ اب دوبارہ 30فیصد سے بھی بڑھ جائے گی جس سے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک میں افراط زر میں مزید اضافہ ہو گا اور مہنگائی کی شرح 30فیصد سے اوپر جائے گی۔ معروف ماہر اقتصادیات اور انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ انیڈ فنانس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ ملک میں اس وقت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد کل آبادی کا 40فیصد ہے، اگر نگران حکومت بجلی ،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی پالیسیاں جاری رکھتی ہے تو رواں مالی سال ملک میں مزید 75لاکھ سے ذائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ ملک میں بے روز گاری بڑھے گی تجارتی خسارہ اور جاری حسابات کا خسارہ بڑھے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ابھی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے اس کے بعد بجلی اور گیس مہنگی کریں گے۔
یہ صورتحال عام آدمی کے لیے تو یقینا افسوس ناک ہے لیکن خاص آدمیوں کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا خاص ہونا اس ریاست کے وجود کے ساتھ مشروط ہے۔ عوام کو جان بوجھ کر بند گلی میں لے جایا جارہا ہے اور اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے جس سے ملک خانہ جنگی کی طرف جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غیر ضروری ٹیکسوں کو ختم کر کے عام آدمی کو فوری ریلیف مہیا کرے اور اگر معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے کوئی قربانی درکار ہے تو وہ قربانی مراعات یافتہ اشرافیہ سے لی جائے نہ کہ عام آدمی سے۔
روز افزوں مہنگائی ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہے
Sep 18, 2023