نونیر کے رہائشی نے گاﺅں میں پن بجلی گھر بنا لیا
قابل تعریف تعریف ہے یہ اور اس جیسے دیگر لوگ جو آج بھی اچھے کام کر کے اپنے علاوہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اگر لوگوں کو فائدہ پہنچانا بھی ایک خوبی ہے تو پھر اس نوجوان کو اتنے وسائل ملنے چاہیے کہ یہ پورے میں ایسے مین بجلی گھروں کا جال بچھا دے۔ کم آمدنی والے پسماندہ علاوں میں ان بجلی گھروں کی بدولت ماہانہ 200 روپے پر بجلی کی فراہمی ان لوگوں کے لیے نعمت ہو گی۔ ہمارے پاس سینکڑوں پانی سے ہوا سے سورج سے توانائی کے حصول کے راستہ ہیں مگر ہم اربوں روپے ڈکار کر بھی ان میں سے چند ایک سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پاتے کہ پھر ان بجلی فراہم کرنے والے محکموں کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ یہ جو اربوں روے عوام سے بل وصول کرتے ہیں اربوں روپے حکومت سے فنڈز لیتے ہیں ان کا کیا بنے گا۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت ازخود ایسے منی بجلی گھر بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کرے۔ شہروں اور دیہات میں کم آمدنی والے علاقوں میں ان کو فروغ دیا جائے۔ پیسے والے طبقات بے شک واپڈا سے یا لیسکو، پیسکو، کیسکو سے بجلی خریدیں جو ان کے پاس وافر مقدار میں دستیاب ہو گی۔ سولر پینل مہنگے ہو گئے یا کر دئیے گئے ہیں جو بنانے والے ماہانہ کروڑوں کما رہے ہیں۔ بجلی کی قیمت ادا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے سرکاری بجلی متمول طبقے کے زیر استعمال لائی جائے۔ اور یہ غریب پرور سستی بجلی غریب اور متوسط طبقے کو فراہم کی جائے۔ اس طرح کم از کم میرے گاﺅں میں بجلی آئی ہے والا سپنا اور پورے ملک میں سستی بجلی کا خواب پورا ہو گا۔ حکومت ایسے لوگوں کو نظرانداز کرنے کی بجائے ان کی قدر کرے ان کی سرپرستی کرے۔ ورنہ یہ جو بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے تھوک کے حساب سے انجینئر پیدا ہوتے ہیں سائنسدان نکلتے ہیں آخر یہ کیا کرتے ہیں کہ ان پر سرمایہ لٹایا جاتا ہے۔ سرمایہ کاری کرنی ہے تو اس جیسے نوجوانوں پر کریں جو کم تعلیم کے باوجود زرخیز ذہین رکھتے ہیں نت نئی راہیں تلاش کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی میں لفظی جنگ شدت اختیار کر گئی
اب ظاہری بات ہے جب کرنے کو کوئی کام نہ ہو تو پھر یہی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے پر لفظوں کے نشتر چلائے جائیں سو اب کل کے اتحادی آج کے مخالف بن کر یہی کر رہے ہیں۔ ایک محاورہ بھی ایسا ہی ہے کہ ”ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹی“ اسی لیے کئی معاملات میں بزرگوں نے شراکت داری کے نقصانات پر بھی بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ مسلم لیگ (نون) والے کہتے ہیں ان کی حکومت تنہا نہیں تھی ساری اتحادی جماعتیں اس میں شریک تھیں اور وزارتوں کے ساتھ مشیروں کے مزے بھی لوٹ رہی تھیں۔ اچھے برے فیصلوں میں سب برابر کے شریک ہیں۔ مگر پیپلز پارٹی اپنا دامن بچاتے ہوئےاپنے کو ستی ساوتری ثابت کرنے کے لیے پچھلی اتحادی حکومت کے تمام گناہوں سے خود کو بری الذمہ قرار دینے پر تلی ہوئی ہے۔ حالانکہ وزارت خارجہ و دیگر اہم وزارتوں پر اسی کے جیالے اور جیالیاں براجمان تھے۔ اب سارا نزلہ مسلم لیگ (نون) پر گرا کر بہت سے اتحادی اپنا اپنا دامن بچا رہے ہیں۔ جیسے جیسے اتحادی حکمرانوں کے پول کھل رہے،ان کی کارکردگی اور کرپشن سامنے آ رہی ہے۔ اس کی وجہ سے سب اپنے کو بچانے کے لیے دوسروں پر الزام لگا رہے ہیں۔
اب کوئی کہتا ہے بھٹو مر چکا ہے۔ کوئی کہتا ہے محسن کو ڈسنا ضیاءالحق کی باقیات کی شناخت ہے۔ کوئی کہتا ہے پیپلز پارٹی کی کارکردگی صفر بٹا صفر ہے۔ کوئی کہتا ہے ووٹ کو عزت دینے والے بھاگ گئے۔ یوں سیاسی میلے میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے رنگ جما رہے ہیں۔ ایک اور تنازعہ الیکشن 90 روز میں ہوں گے یا تاخیر سے پر بھی کافی لے دے ہو رہی ہے۔ نجانے کیوں بہت سے لوگوں کو لگ رہا ہے کہ پنیر کے لیے لڑنے والے کہیں دیکھتے نہ رہ جائیں اور کوئی دوسرا پنیر لے اڑے۔
٭٭٭٭
سائیکلوں اور لالٹینوں کا دور لوٹ آنے لگا
یورپ والے ویسے ہی زبردست تجارتی دماغ رکھتے ہیں اور اسی لیے کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی برطانیہ سے تجارت کرکے انڈیا آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان پر قابض ہو گئی۔ انہی برطانوی تاجروں کی ذہانت دیکھیں ایک مرتبہ برطانیہ کا بادشاہ شدید علیل تھا۔ عوام کسی بھی وقت ان کے انتقال کی خبر کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔ لندن کے ایک تاجر کے ذہن میں اچھوتا خیال آیا اور اس نے پورے شہر سے کالے کپڑوں کا سارا سٹاک خرید کر ذخیرہ کر لیا۔ یوں جب بادشاہ کے انتقال کی خبر آئی تو سوگ کے طور پر سب کالے لباس کی تلاش میں نکلے تو سوائے اس تاجر کے کسی کے پاس سیاہ لباس دستیاب نہ تھا یوں ا س نے مہنگے داموں یہ سارا مال ڈبل ٹرپل قیمت پر فروخت کر کے دام کھرے کیے۔ یہ واقعہ خاص ہر ہم سائیکل بنانے اور لالٹین بنانے والے کارخانوں کے مالکان کو سنا کر مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ عزیزان گرامی، پٹرول کی گرانی اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کے بعد عنقریب پورے ملک میں ان کا کاروبار چمکنے والا ہے۔ کیونکہ اب گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں صرف گھروں میں کھڑی نظر آنے والی ہیں۔ صرف اشرافیہ ہی یہ عیاشی برداشت کر سکے گی۔ عام آدمی اب پہلے کی طرح سائیکل ہی استعمال کر پائے گا اور بجلی کے بل ادا کرنے کی بجائے وہ لالٹین ہی جلائے گا۔ اس لیے جلد ہی ہمارے سڑکوں پر سائیکلوں کا راج ہو گا جس کی وجہ سے نہ آلودگی ہو گی نہ شور۔ لوگوں کی صحت پر بھی اس کا اچھا اثر پڑے گا اور بیماریاں بھی کم ہوں گی۔ بجلی کے بلب اور پنکھے چلانے کی بجائے لالٹین اور موم بتی یاچراغ کی روشنی میں بھی قدرے آرام ہو گا۔ راتیں سونے کے لیے ہی بنی ہیں۔ موم بتی اور چراغ بنانے والے بھی کاروبار میں فائدہ اٹھا پائیں گے۔ دستی پنکھوں کا کاروبار کبھی فروغ پائے گا۔ حکومت بھی سرکاری سطح پر وزیر ہوں یا بیوروکریٹس پر پابندی لگائے کہ وہ بھی روزانہ سائیکلوں پر دفاتر آئیں۔ اے سی بند رکھیں یا پھر گاڑی کا پٹرول اور اے سی کا بل خود ادا کریں حکومت انہیں ٹکا بھی نہ دے۔
یورپ میں بھی تو اب تک سائیکل استعمال ہوتی ہے تو ہم جیسے بھوکے ننگے کیوں نہیں کر سکتے۔
٭٭٭٭
میری حالت ڈوبتے سورج جیسی ہے (ر) جسٹس عمر عطا بندیال الوداعی ریفرنس میں آبدیدہ ہو گئے
ہر عروج را زوال است۔ چڑھتے سورج کو بالاخر ڈوبنا ہوتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں عشرت ہو یا عسرت دونوں حالتوں میں خدا کو یاد رکھنا چاہیے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہی کامیابیاں اور کامرانیاں سمیٹتے ہیں جو ایسا نہیں کرتے انہیں بہت کچھ سننے کو ملتا ہے۔ ناکامیوں کے داغ کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ جب سورج نصف النہار پر ہوتا ہے تو اس کو اپنے سامنے آنے والی ہرچیز کا سایہ چھوٹا محسوس ہوتا ہے مگر جب یہی سورج ڈھلنے لگتا ہے تو یہی سائے دیو قامت ہوتے چلے جاتے ہیں اور شام کے ڈھلتے ہی ہرسو پھیل جاتے ہیں اور سورج کا نام و نشان باقی نہیں رہتا۔ یہی حال انسانوں کا بھی ہے جو شہرت کے عروج پر ہوں تو اگر نیک نامی کمائیں گے تو اس کے بعد بھی دعائیں پائیں گے۔ عہدے سدا ساتھ نہیں رہتے کرسی وہاں ہی رہتی ہے اس پر بیٹھنے والے بدلتے رہیں۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا اپنے الوداعی ریفرنس میں آبدیدہ ہو کر خود کو ڈوبتے سورج سے تشبیہ دینا اس بات کا غماز ہے کہ اب ان کے تمام فیصلے اپنی اچھائیوں ، برائیوں کے ساتھ تادیر ان کے ساتھ جڑے رہیں گے۔ انہیں واہ واہ اور ہائے ہائے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لوگ بڑے ظالم ہیں وہ اچھی اور بری دونوں باتوں کا حساب رکھتے ہیں۔ قانون اندھا ہوتا ہے مگر لوگ آنکھوں والے ہوتے ہیں وہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ذرا انصاف کا ترازو کسی طرح جھکتا ہے وہ تاڑ لیتے ہیں ، جن فیصلوں سے ملکی حالات پر اثر پڑا ہے اسے تو شاید مدتوں یاد رکھا جائے گا اور اس پر باتیں ہوں گی تبصرے ہوں گے اور تنقید بھی یا توصیف بھی۔ بندیال صاحب خود اپنے اندر کے بڑے منصف ہیں سوچ کر فیصلہ کریں کہ انہوں نے جو کیا درست تھا یا نہیں۔
پیر‘ یکم ربیع الاول 1445ھ ‘ 18 ستمبر 2023ئ
Sep 18, 2023