ربےع الاول کا مہےنہ شروع ہوچکا ہے ہر طرف درود سلام کی ہوائےں چل رہی ہےں۔وےسے تو اہل محبت کا ہر دن عشق مصطفے ? مےں گزرا کرتا ہے۔اےمان والے جہاں کہےں بھی ہوں،جس حال مےں ہوں نبی پاک ? پر درور و سلام کے ندرانے بےجھتے رہتے ہےں۔کئی عشروں سے ہم دےکھ رہے ہےں کہ ربےع الاول کے شروع ہونے سے پہلے ہی عاشقان مصطفی نعت کی محافل ترتےب دےنے لگتے ہےں۔ےکم ربےع الاول سے شروع ہونے والی محافل ربےع ثانی تک چلتی رہتی ہےں۔ان محافل مےں ہر عمر کے مسلمان جو ش و خروش سے شرےک ہوتے ہےں۔پچھلے دو تےن عشروں سے ےہ دےکھا جارہا ہے کہ ان باربرکت محفلوں مےں نعت پڑھنے والے لوگوں مےں جوش بڑھانے کے لےے کبھی سےنے سے آواز نکالنے کی ترغےب دےتے ہےں تو کبھی ہاتھ اوپر کرکے نعرے لگواتے نظر آتے ہےں جبکہ ہم نے تو سنا ہے کہ جہاں ذکر حبےب خدا ہو وہاں رحمت کی برساتےں ہوا کرتی ہےں اور جہاں ےہ ےقےن ہو کہ رب کی رحمت کھل کے برس رہی ہے وہاں اےک مسلمان کو ہاتھ اوپر کرنے کی بجائے سر جھکا کے گڑ گڑاتے ہوئے نم آنکھوں کے ساتھ رب سے اپنے لےے ،اپنوں کے لےے ،امت کے لےے اور پھر ساری انسانےت کے لےے دعائےں مانگنی چاہےں۔بے شک برصغےر پاک و ہند مےں نعت لکھنے والوں مےں امام اہل محبت امام احمد رضا خاںکا نا م سب سے معتبر تسلےم کےا جاتا ہے۔لےکن تارےخ شاہد ہے کہ امام احمد رضا بھی کبھی کبھی اپنا لکھا کلام استاد شاعر داغ دہلوی کو دکھا لےا کرتے تھے۔ بےا ن کےا جاتاہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے چھوٹے بھائی حضرتِ علامہ حسن رضا خا ن فنِّ شاعری میں حضرت ِداغ دہلوی کے شاگر د تھے، بےان کےا جاتا ہے کہ جب ا±ن کی چند نعتیں جمع ہو جاتی تھیں تو اپنے صاحبزاد ے حضرت مولانا حسنین رضا خان کے ہاتھ اپنے استاد حضرت ِداغ دہلوی کے پاس اصلاح کے لیے دہلی روانہ کردےا کرتے تھے۔
ایک بار کا واقعہ ہے اعلیٰ حضرت نے اپنے بتےجھے سے دریافت فرمایا کہ کہاں جانا ہو رہا ہے مولانا حسنین رضا خان نے عرض کیا والد صاحب کا کلام لیکر استاد داغ دہلوی کے پاس جا رہا ہوں۔
اعلیٰ حضرت ا±س وقت اےک نعتِ پا ک قلمبند فرما رہے تھے جس کا مطلع ہے:ا±ن کی مہک نے دل کے غنچے کھلائے دیئے ہیں۔ابھی مقطع نہیں لکھا تھا، فرمایا لیجئے! چند اشعار ہو گئے ہیں،ابھی مقطع نہیں لکھا ہے ےہ نعت بھی داغ دہلوی کو دکھا لیجئے گا۔چنانچہ مولانا حسنین رضاخان صاحب دہلی پہنچے اور استاذ الشعر اءحضرتِ داغ دہلوی کو اعلیٰ حضرت کا لکھا ہواکلام پیش کیا۔
حضرتِ داغ نے امام احمد رضا خان کے نعتےہ کلام کو دےکھا تو دجد کی سی کفےت مےں آگے،مولانا حسنین فرماتے ہیں:حضرت ِداغ نعت ِپاک کو گنگنائے جارہے تھے ،جھوم رہے تھے اور ا±ن کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے، کچھ دےر بعد حضرت ِداغ دہلوی نے فرمایا اِس نعتِ پاک میں تو کوئی ایسا حرف مجھے نظر نہیں آتا جس میں کچھ قلم لگا سکوں، اور مےرا خےال ہے کہ یہ کلام تو خود لکھا ہوا معلوم ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ کلام تو لکھوایا گیا ہے،میں اس کلام کی فن کے اعتبار سے کیا کیا خوبیاں بیان کروں بس میری زبان پر تو یہ آرہا ہے کہ”ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئے ہیں“ فرمایا!لیجئے مقطع بھی ہو گیا۔اور اعلیٰ حضرت کو ایک خط لکھا کہ اس نعت ِپاک کو اپنے دیوان میں اس مقطع کے ساتھ شامل کر یں۔اور امام احمد رضا خان نے اےسا ہی کےا۔مکمل نعت ِ کچھ ےوں ہے۔
ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیں
جس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیے ہیں
جب آ گئی ہیں جوش رحمت پے ان کی آنکھیں
جلتے بجھا دیے ہیں، روتے ہنسا دیے ہیں
میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دیے ہیں، دربے بہا دیے ہیں
آ نے دو یا ڈبو دو اب تو تمھاری جانب
کشی تمھیں پے چھوڑی، لنگر اٹھا دیے ہیں
ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ھو
جب یاد آ گئے ھیں، سب غم بھلا دیے ہیں
ہم سے فقیر اب بھی پھیری کو اٹھتے ھوں
گے اب تو غنی کے در پر بستر جما دیے ہیں
اللہ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ھو گا
رو رو کے مصطفی نے دریا بہا دیے ہیں
ملک سخن کی شا ہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دےے ہےں
صاحبو!نعت پڑھنا اور نعت کہنا دو الگ فعل ہےں۔کسی کا لکھا کلام پڑھنا نسبتاًآسان کام ہے لےکن نعت لکھنا بہت نازک کام ہے۔لےکن ہم دےکھتے ہےں کہ اکثر نعت خواں کسی شاعر کی لکھی ہوئی نعت پڑھتے ہوئے ساتھ اپنی طرف سے کچھ شعر جوڑنے کی کوشش کرتے ہےں۔اےسے نعت پڑھنے والوں کی خدمت مےں اتنا ہی عرض کروں گا کہ دربار ِ مصطفی بہت ادب والا دربار ہے۔ذرا سی غلطی سے سارے اعمال ضبط ہو سکتے ہےں۔
اس دربار مےں زور زور سے لہک لہک کے جھوم جھوم کے کلام پڑھنے کی بجائے نہاےت ادب و احترام سے التجا پےش کرنی چاہےے۔محافل نعت حصول برکت کے لےے رکھی جاتی ہےں تو انتظامےہ کا ےہ فرض ہے کہ جنہےں نعت پڑھنے کے لےے مدعو کرےں ان سے گفتگو کرےں کہ نعت پڑھتے وقت ادب و احترام کے تمام تقاضے ملحوظ خاطر رکھے جائےں۔محبت رسول کا تقاضہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے قول و فعل پر دھےان دے۔محبت رسول کا تقاضہ ہے کہ دعوی کرنے والے اپنی عملی زندگےوں مےں کچھ اےسے تبدےلےاں لانے کی کوشش کرےں کہ ہر کوئی دوسروں کے ساتھ بہترےن سلوک کرتا نظر آئے۔محبت رسول کا تقاضہ ہے تو بھی کہ ہم اپنی دعاوں مےں سب کی خےر مانگےں۔لوگوں مےں آسانےاں تقسےم کرنے کی کوشش کرےں اور دوسروں کے دکھ درد کم کرنے مےں اپنا کردار ادا کرتے نظر آئےں۔محبت رسول کا تقاضہ ہے کہ ہر مسلمان اچھا شہری بننے کی کوشش کرے۔
ملک سخن کی شا ہی تم کو رضا مسلم
Sep 18, 2023