’بیت الشعر کے دروازے رموز و آلائم کے نقش و نگار سے مزین ہیں لیکن مقفل رہتے ہیں۔ ایک قاری کو بیت الشعرکا بار بار طواف کرنا پڑتا ہے تاکہ اس پر کوئی در وا ہو جائے ‘ (امیر خسرو) ۔ بزرگوار محمد رفیق تارڑ سابق صدر پاکستان کے حافظے میں اردو پنجابی کے ہزاروں اشعار محفوظ تھے ۔ انھیں بہت سی نظمیں پوری پوری ازبر تھیں۔ خاص محفلوں میں اپنے خاص خاص دوستوں کو نوازتے اور خود بھی حظ اٹھاتے رہتے ۔ ایک مرتبہ فرمایا، چیف الیکشن کمشنر ایس اے نصرت شعری ذوق سے محروم لوگوں کو بدقسمت قرار دیتے اور کہتے ، بیچارے نہیں جانتے کہ وہ زندگی میں کتنے لطف و ذائقے سے محروم رہ گئے ۔ اسلم گورداسپوری کا یہ شعر بار بار پڑھنے سننے کے لائق ہے ۔ ہر بار نئے معنی آشکار ہوتے ہیں ۔
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لیے
عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارا کرلیں
یہ شعر ایک سیاسی کارکن کی زندگی کی پوری روداد ہے ۔ کسی سیاسی کارکن کے ساتھ لفظ دیانت اور غیرت کا اضافہ ، اضافی سا لگتا ہے ۔ دیانت، غیرت اور لگن کے بغیر شخصیت ہی مکمل نہیں ہوتی ۔ پچھلے دنوں لاہور شعیب بن عزیز کے ہاں پہنچا ہوا تھا۔ ان کے سیل فون پر بیل ہوئی ۔ کال قدرے لمبی ہو گئی ۔ کرید پر پتا چلا کہ موصوف اسلم گورداسپوری سے گپ شپ لگا رہے ہیں۔
کالم نگار نے عرض کی، ان سے پوچھ دیں کہ ان کی آٹو بائیو گرافی کا کیا نام ہے ؟مزید ان سے ناشر کا نام پتا بھی دریافت کر لیں۔ کتاب کا نام ’تجھے اے زندگی لاﺅں کہاں سے‘پتا چلا شعیب اپنی طبعی خوش مزاجی کے باعث فقرہ کسے بغیر نہ رہ سکے ۔ کہنے لگے، کتاب کے نام سے یہ خود نوشت قطعاً نہیں لگتی۔ مرنے کے بعد لکھی گئی سوانح عمری معلوم ہوتی ہے ۔ کتاب منگوالی گئی ۔ چند نشستوں میں پڑھ بھی لی ۔ کتاب بہت شاندار ہے ۔ آخر تک قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے ۔ لیکن کتاب کمپوزنگ کی غلطیوں سے بھری پڑی ہے ۔ اتنی اغلاط سے بھری کتاب ادب ، ادیب اور قاری تینوں سے زیادتی ہے ۔ پہلے پچاس ساٹھ صفحوں تک اغلاط کو نشان زد کرتا رہا پھر کتاب کواس کے حال پر چھوڑ دیا۔یاد نہیں کہ کتاب کا کوئی ایسا صفحہ بھی آیا ہو جس میں کوئی غلطی نہ ہو۔
ملک کے معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کی کتابیں بھی اسی اشاعتی ادارے سے شائع ہوئی ہیں۔ پچھلے دنوں وہ اپنے مالی معاملات کے سلسلے میں ان سے شاکی تھے ۔ یہ پبلشر ان کی کتابیں چھاپ چھاپ کر اپنے لیے نوٹ چھاپتے رہے لیکن بیچارے ادیب کے پلے کچھ نہ پڑا۔
اسلم گورداسپوری نے بھٹو سے اپنی ملاقات کا ذکر پوری تفصیل سے کیا ہے۔ 65ءکی جنگ کے چند ماہ بعد جنوری 66ءمیں گورنر ہاﺅس لاہور 6ستمبر کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی جنرل ایوب خان اور میزبان گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ تھے ۔ بھٹو کو وزیر خارجہ کے طور پر بلا لیا گیا۔ اس موقع پر اسلم گورداسپوری کی پڑھی ہوئی نظم سے دو شعر:
بموں کا شور تھا توپوں کی دھن دھناہٹ تھی
زمینِ پاک پہ اک اجنبی سی آہٹ تھی
پہاڑ کانپ گئے آسماں بھی تھرایا
جو ارضِ پاک کی خندہ زمیں پہ بل آیا
ان دنوں صدر ایوب اور گورنر نواب آف کالا باغ کے تعلقات میں گرمجوشی نہ رہی تھی ۔ گورنر کو ہٹانے کی افواہ عام تھی ۔ نواب آف کالا باغ کو اللہ جانے کیا سوجھی ، اس نے تقریب میں محمد حسین ٹین ساز کو بھی بلا رکھا تھا۔ یہ تیسرے درجے کا بدنام زمانہ جلسوں میں شور شرابے ڈالنے والا نام نہاد سیاسی کارکن تھا۔ اس نے بدتمیزی سے اسٹیج پر چڑھ کر تقریب کا تمام سلسلہ منقطع کرتے ہوئے ٹھیٹھ پنجابی میں گورنر امیر محمد خان کے حق میں تقریر شروع کر دی۔ اپنی بھونڈی سی تقریر کاآغاز ’اوئے‘ سے کرتے ہوئے کہنے لگا کہ تیری تمام کامیابیوں کا سہرا نواب کالا باغ کے سر ہے ۔ اس نے تیرے تمام دشمنوں کو چت کیا، مادرِ ملت کے خلاف الیکشن میں تجھے جتوایا ، اب تو اسے گورنری سے ہٹوانا چاہتا ہے۔ صدر ایوب اس صورتحال سے خاصے بدمزہ ہوئے اور اسٹیج سے اٹھ کر گورنر ہاﺅس کی عمارت کی طرف روانہ ہو گئے ۔ نواب آف کالا باغ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیے۔
اب گورنر ہاﺅس کے وسیع لان میں ذو الفقار علی بھٹو اپنے پرجوش زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے مداحوں میں گھرے اکیلے رہ گئے ۔ اسلم گورداسپوری نے پرجوش لاہوری انداز میں بھٹو کو اپنے کندھوں پر بٹھالیا۔ پھر عمر بھر اپنے کندھوں پر بٹھائے اور دل و دماغ میں بسائے رکھا۔ اب ان کا دن رات بھٹو پارٹی ہی اوڑھنا بچھونا تھا۔ انھیں ایک دن ایوب خان کی حکومت کے وزیر ملک خدا بخش بچہ نے کہا، برخوردار، ہمارا ساتھ دو، مال ومال ہو جاﺅگے ۔ بھٹو کے ساتھ مل کر بہت گھاٹے کا سودا کر رہے ہو، تباہ وبرباد ہو جاﺅ گے ۔بھلا کوئی آدمی اقتدار کے بغیر بھی رہ سکتا ہے ؟اسلم گورداسپوری نے لکھا، میں نے اسے جوا ب دیا کہ میں نے بھٹو سے عشق کیا ہے اور عشق نفع نقصان سے بے نیاز ہوتا ہے ۔ وقت گزرتا گیا ۔ پھر جب بھٹو کی حکومت آئی تو ملک خدا بخش بچہ مشیر زراعت تھے ۔ اسلم سے ملے تو قہقہہ مار کر کہنے لگے، ہم نے آپ کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ہم اقتدار کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے ۔
بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا سفر بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کے قیادت میں شروع ہوتا ہے ۔ اسلم گورداسپوری کی رائے میں اگر پیپلز پارٹی کی دوسری صف کے لوگ جیسے ڈاکٹر مبشر حسن وغیرہ بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کے دوران ڈٹ کر پارٹی کی قیادت کرتے ، بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف لوگوں میں تحریک چلاتے تو نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کا پاکستان کی سیاست میں کوئی کردار نہ ہوتا اور اس طرح پیپلز پارٹی موروثی قیادت سے بچ جاتی ۔
٭....٭....٭