جب دہلی کے مغل فرمانروا آپس میں لڑ لڑ کر بہت کمزور ہو گئے تو دوسری بڑی طاقت پکڑنے والی مسلمان حکومت سلطنت اودھ تھی۔ لیکن بدقسمتی سے اس سلطنت کے تمام حکمران بہت عیاش اور نا اہل ثابت ہوئے۔
اس سلطنت کی بنیاد 1732ءمیں سعادت خان نے ڈالی تھی جس نے اپنے کیے کی سزا پائی۔ بقیہ تمام کے تمام لوگ انگریزوں کے باج گزار رہے۔ دولت اکٹھی کرنے اور عیاشی میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے لیکن عوام کی فلاح و بہبود کا کبھی سوچا تک نہ تھا۔ ان لوگوں نے اپنی بیگمات کے لیے محلات بنوائے، باغات لگوائے لیکن لکھنو¿ میں پہلا کالج انگریزوں نے ہی کھولا۔ انھیں اتنی توفیق نہ ہوسکی کہ عوام کے لیے کوئی تعلیمی ادارہ کھول دیں یا عوام کی بھلائی کا کوئی کام کریں۔
ان نواب زادگان یا فرمانروا¶ں میں ایک لاڈلے شہزادے تھے شہزادہ سلیمان جاہ جو 1827ءمیں اپنے والد نواب غازی الدین حیدر کی موت کے بعد ناصر الدین حیدر کے نام سے اود ھ کے فرمانروا بنے۔ والد نے 10 کروڑ روپے کی خطیر رقم خاندان کے لیے چھوڑی تھی جو اس شوقین مزاج شاہ نے چند سال میں اڑا دی۔
ایک دفعہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا کمانڈر انچیف لارڈ کمبر میئر (Lord Cumbermere) لکھنو¿ آیا اور شاہ کا مہمان بنا۔ دوسرے دن ناشتے پر بادشاہ سلامت اور اس کی ملکہ تاج محل نے جو لباس زیب تن کیا انگریز دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس لباس کی قیمت کروڑوں روپے تھی۔
بادشاہ اور ملکہ دونوں ہیروں موتیوں اور جواہرات سے لدے ہوئے تھے۔ جسم کا کوئی حصہ ہیروں اور جواہرات سے خالی نہ تھا۔ کمانڈر انچیف کے سٹاف افسران یہ لباس دیکھ کر دنگ رہ گئے اور تفصیلات بیان کرنے کے لیے کئی صفحات خرچ کرنے پڑے۔
بادشاہ سلامت کو ہندوستانی لوگ اور اپنے عوام قطعاً پسند نہ تھے۔ ان کے تمام دوست مغربی لوگ تھے جن کی دوستی پر بڑا ناز تھا اور ان کے سامنے بچھے جاتے تھے۔ یہ شخص اتنے گھٹیا اور کمینے کردار کا مالک تھا کہ نہ تو اسے عوام اور اس کے وزراءپسند کرتے اور نہ ہی اس کے دربار سے منسلک برطانوی ریذیڈنٹ کرنل سر جان لور (Colonel Sir John Lor) جو اس سے بات تک کرنا اپنی توہین سمجھتا تھا اور اس نے کئی دفعہ بادشاہ کی ملاقات کی درخواست پر ملنے سے انکار کر دیا۔
ولیم نائٹن (William Knighton) اپنی کتاب :
Private Life of an Eastern King
میں اس کے کردار کے لیے:
debauched, vicious اور dissolute جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔اس کی تمام تربیت خواتین اور خواجہ سرا¶ں کے ذریعہ سے کی گئی تھی، لہٰذا بادشاہ بننے کے بعد بھی اس کا دربار گھٹیا عورتوں اور خواجہ سرا¶ں سے بھرارہتا تھا جنھیں مصاحبین کا درجہ حاصل تھا اور بادشاہ سلامت امور مملکت کے تمام مشورے ان ہی گھٹیا عورتوں اور خواجہ سرا¶ں سے کرتا تھا۔ بالفاظ دیگر یہی لوگ امور سلطنت کی نگرانی کرتے تھے۔
حیران کن اور قابل نفرت بات یہ ہے کہ بادشاہ سلامت کی پہلی ملکہ دہلی کے مغل بادشاہ کی بیٹی تھی جو کہ ایران النسل ہونے کے ناتے سے بہت خوبصورت اور پاکیزہ کردار کی حامل خاتون تھی لیکن بادشاہ سلامت کو وہ کبھی بھی اچھی نہ لگی اور بادشاہ سلامت نے اپنی عیاشی کے لیے عورتوں اور خواجہ سرا¶ں کی ایک فوج پال رکھی تھی جن کی تعداد کئی سو تھی۔ بادشاہ کی رنگین مزاجی یا کردار کے لچر پن کا اندازہ اس ایک مثال سے لگایا جا سکتا ہے۔
جب بادشاہ سلامت کا منہ بولا بیٹا شہزادہ منا جان پیدا ہوا تو اس کی گندگی صاف کرنے کے لیے نیچ قوم کی ایک دُلاری نام کی عورت بطور خادمہ رکھی گئی۔ یہ آوارہ بدمعاش اور فاحشہ قسم کی عورت تھی۔ محل میں ملازمت سے پہلے کئی گھٹیا مردوں سے تعلقات تھے۔ حتی کہ اس کا ایک تین سال کا بیٹا بھی تھا جس کے باپ کے نام کا پتا بھی نہ تھا۔ یہ چھٹی ہوئی اور شاطر فاحشہ عورت موقعہ سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔
ایک دن یہ بچے کومحل میں صاف کر رہی تھی کہ بادشاہ سلامت کا ادھرسے گزر ہوا۔ بادشاہ کی نظر پڑی اور بادشاہ دل ہار گیا۔ نتیجتاً یہ فاحشہ عورت ملازمہ سے سینئر ترین ملکہ بن گئی اور بادشاہ نے اس کو ملکہ زمانی کے خطاب سے نوازا اور اس عورت کا ناجائز بیٹا شہزادہ کیوان جاہ بن گیا۔
اس بازاری عورت نے بادشاہ کو اتنا قابو کیا کہ بادشاہ سلامت نے شہزادہ کیوان جاہ کو اپنا بڑا بیٹا تسلیم کیا اور سلطنت اودھ کا والی۔ بادشاہ کی گھٹیا حرکات سے وزرا ءاتنے تنگ ہوئے کہ ایک وزیر نے بادشاہ کی منظور نظر دو بہنوں کے ہاتھ سے اسے زہر پلوادیا اور یوں عوام کی گلو خلاصی ہوئی۔ اودھ کے باقی شاہان کی تاریخ بھی اس سے مختلف نہیں ہے بدقسمت ہے وہ قوم جسے اس قسم کے فرمانروا نصیب ہوں عوام ان شاہوں کی عادات سے اتنے تنگ تھے کہ انگریزوں کی غلامی خوشی سے قبول کرلی۔
شاہان اودھ اس حد تک رنگین مزاج تھے کہ ہمیشہ عورتوں کے ہاتھوںذلیل ہوتے رہے مثلاً ناصر الدین حیدر کے والد گرامی غازی الدین حیدر نے 1814 ءمیں رسم تاجپوشی کے دن موقع کی مناسبت سے بہت ہی قیمتی لباس زیب تن کیا جو ہیرے جواہرات سے لدا ہوا تھا۔
بھرے دربار میں بادشاہ کی بڑی بیگم جس کا نام بادشاہ بیگم تھا کو کسی بات پر غصہ آ گیا۔ اس نے سب مہمانوں کے سامنے بادشاہ سلامت کی پھینٹی لگا دی۔ قیمتی لباس پھاڑ دیا۔ ہیرے جواہرات نوچ ڈالے۔ حتیٰ کہ بادشاہ سلامت کے سر کے بال بھی نوچ ڈالے۔ سب درباری امراءووزراءحیرانگی سے دیکھتے رہ گئے اور بادشاہ سلامت بذات خودڈراور خوف کی علامت بنے رہے کوئی کچھ نہ کر سکا۔
یہ خاتون اتنی طاقتور اور خود سر تھی کہ جب اسے اپنے منہ بولے بیٹے ناصر الدین حیدر فرمانروا اودھ کی اچانک موت کی خبر ملی تو اس وقت یہ اپنے بیٹے منا جان کے ساتھ تنہا زندگی گزار رہی تھی۔ موت کی خبر سن کر اپنے چند باڈی گارڈز اور منا جان کے ہمر اہ زبر دستی شاہی محل میں داخل ہو گئی اور منا جان کو تخت پر بیٹھا کر اس کی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ کسی کو اسے روکنے کی جرا¿ت نہ ہوئی بعد میں بڑی مشکل سے محمد علی شاہ نے ان دونوں کو تخت سے علیحدہ کیا۔
بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ روایت تاحال جاری ہے اور ہمارے موجودہ دور کے حکمران شاہانِ اودھ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
٭....٭....٭