یو این او رپورٹ.... بینظیر کے قاتلوںکی نشاندہی ہو گئی؟

Apr 19, 2010

رانا اعجاز احمد خان
کیا بینظیر بھٹو کا قتل بھی ان قتلوں میں شامل ہو جائے گا جن کا آج تک سراغ نہیں مل سکا؟ ۔سکاٹ لینڈ یارڈ اور تازہ ترین یو این رپورٹ کو دیکھتے ہوئے اس کا آسانی سے جواب دیا جا سکتاہے جو یقینا ہاں میں ہوگا۔آج پاکستان میں اس پیپلز پارٹی کی حکومت جس کی خاطر اس کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی جان کی قربانی دی اور اسی پارٹی کی قیادت نے اقتدار میں آ کر سوا دو سال گزرنے کے باوجود قتل کی F I R بھی درج کرانے کا تکلف نہیں کیا ۔پہلے قتل کے محرکات جاننے کے لئے مشرف حکومت نے سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کی خدمات حاصل کیں پھر محترمہ کی پارٹی نے حکومت میں آکر اقوامِ متحدہ کے ذمے قتل کے حقائق جاننے کی ذمے داری لگا دی۔اصل کا م تو قاتلوں کی نشاندہی ان کی گرفتاری اور ان کو عدالت کے کٹہرے میں لاکر ان کے جرم کے مطابق ان کو انجام تک پہنچانا ہے اس کا کھوج سکاٹ لیں ےارڈ کی ٹیم نے لگایا نہ اقوامِ متحدہ کی ٹیم نے ۔کیوںکہ ان کو اس کا ٹارگٹ ہی نہیں دیا گیا تھا۔اقوام متحدہ کی ٹیم نے اپنی رپورٹ 31دسمبر 2009ءتک پیش کرنا تھی لیکن کام مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اس میں تین ماہ کی توسیع کردی گئی۔یکم اپریل کو رپورٹ مکمل تھی کہ حکومتِ پاکستان کی درخواست پر یہ 15اپریل تک مو خر کرا دی گئی اب رپورٹ سامنے آئی ہے تو پندرہ روزہ التوا کی کوئی سمجھ نہیں آئی۔
گو اقوامِ متحدہ کی رپورٹ عام آدمی کے لئے مایوس کن ہے تاہم اس کے منظرِ عام پر آنے سے بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے جن کا مشرف حکومت کے ساتھ موجودہ حکومت سے بھی گہرا تعلق ہے۔اکثر سوالات تو پہلے ہی جیالو ں سمیت عام آدمی کی زبان پر بھی تھے۔
اقوام متحدہ کے بینظیر بھٹو کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو منوز نے اقوام متحدہ کی عمارت میں رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم کو جس طرح کے خطرات تھے اور جن کا علم مشرف حکومت اور آئی ایس آئی کو تھا ان کی مناسبت سے سابق وزیر اعظم کو سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اگر بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم کی ہوتی تو ان کو قتل ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔ بم دھماکے کے بعد مناسب تحقیقات نہیں کی گئیں اور جائے حادثہ سے صرف تیئس شواہد اکھٹے کیے گئے اور اسے دھو دیا گیا حالانکہ وہاں سے ہزاروں شواہد مل سکتے تھے۔ایسا کرنا اعلیٰ سطحی احکامات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ہیرالڈو مونوز نے کہا کہ کمیشن کو یقین ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پولیس اہلکاروں کی جانب درست اقدامات کرنے میں’ناکامی’ زیادہ تر جان بوجھ کرتھی۔
رپورٹ میں سب سے اہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ خودکش دھماکے کے بعد بے نظیر بھٹو کو ایک تباہ شدہ گاڑی میں چھوڑ دیا گیا اور بلٹ پروف کالی مرسڈیز جس میں رحمن ملک‘ بابر اعوان اور فرحت اللہ بابر تھے موقع سے غائب ہو گئی جبکہ انہیں رکنا چاہئے تھا۔ جلسے کے بعد کالی مرسڈیز گاڑی سب سے پہلے نکلی خیال کیا جاتا ہے کہ خودکش حملے کے وقت جائے وقوعہ سے یہ گاڑی 100 سے 250 میٹر کے فاصلے پر ہو گی۔ گاڑی میں موجود کچھ افراد نے بتایا کہ انہوں نے خودکش دھماکے کو محسوس کیا تھا۔ خودکش دھماکے کی جگہ پر موجود بعض افراد نے بتایا کہ مرسڈیز گاڑی اتنی تیزی سے نکلی کہ دھماکے وقت وہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ کمشن کے لئے یہ بات ماننا ممکن نہیں کہ کالی مرسیڈیز میں سوار افراد دھماکے کے وقت زرداری ہاﺅس پہنچ چکے تھے جو وہاں سے 20 منٹ کی ڈرائیو پر تھا کمشن سمجھتا ہے کہ اس گاڑی کو کسی محفوظ جگہ پر رک کر بینظیر کے بارے میں جاننا چاہئے تھا کیونکہ اس موقع پر ویسے بھی بیک اپ کال کی ضرورت ہوتی ہے اور کالی مرسڈیز بیک اپ کار کے طور پر کام کر رہی تھی۔ خود کش دھماکے کے بعد بینظیر بھٹو زخمی حالت میں اپنی پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان کی گود میں جا گریں اور انہیں ان کی تباہ شدہ لینڈ کروزر میں ہسپتال لے جانے کی کوشش کی جاتی رہی جس کے آگے پولیس کی صرف ایک موبائل تھی۔ یہ لینڈ کروزر ایک ٹرن لیتے ہوئے رک گئی کیونکہ اس کی حالت خراب تھی جس پر بینظیر کو ہسپتال لے جانے والے کچھ دیر تک مری روڈ پر انتظار میں کھڑے رہے حتیٰ کہ شیری رحمن اپنی گاڑی میں آئیں اور اس میں بینظیر کو ہسپتال لے جایا گیا۔
ایک طرف اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بینظیر کے قاتلوں کی واضح نشاندہی نہ ہونے کے باوجود بھی قاتلوں کا کھرا بتا دیا گیا ہے جو واضح طور پر مشرف اور ان کے سابق ساتھیوں کے گھر سے زیادہ خود حکومتی پارٹی کے رہنماوں کے گھروں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اب دیکھیں زرداری صاحب بینظیر بھٹو کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے کے لئے کیا کرتے ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق محترمہ بینظیر کے ہر مشکوک کردار کو کہیں نہ کہیں رعایت دی گئی ہے جیسے مشرف کو ملک چھوڑنے کی سہولت اور کئی کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے۔
مزیدخبریں