یہ بہیمانہ انتقام کی جنگ تھی جو اس پر امن ملک کے خلاف لڑی گئی جس کا نائن الیون کے واقعے سے کوئی تعلق نہ تھا اور اپنی کامیابی کےلئے معاونت پاکستان سے حاصل کی جہاں ایک غاصب فوجی برسراقتدار تھا۔ اس نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے نمائندے کی ایک” مڈنائٹ کال“ پر اس امریکی جنگ میں شرکت اختیار کرلی۔ اپنی فضائی حدود امریکہ کے جنگی طیاروں کی پروازوں اور افغانستان پر حملے کےلئے کھول دیں اور زمینی اڈے امریکہ کی تحویل میں دے دیئے۔ کراچی کی بندرگاہ پر سامان رسد اتارنے اور پھر کنٹینروں کے ذریعے چمن اور طورخم کے راستے افغانستان لے جانے کی اجازت دے دی لیکن دنیا کی اس واحد سپر پاور کو تاریخ نے ایک بار پھر یاد دلایا کہ غیور اور خوددار آزاد قوموں کو گولے اور بارود کی طاقت اور کٹھ پتلی حکمرانوں کی معاونت سے مغلوب نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ ایک دفعہ سٹریٹجکل پسپائی اختیار کرنے والے خوددار افغانوں نے جو دنیا کی ایک سابق سپرپاور سوویت یونین کو شکست سے دوچار کر چکے تھے.... کچھ عرصے کے بعد گوریلا جنگ شروع کر دی تو امریکہ اور اس کے حلیف سامنا نہ کر سکے۔ لاشوں کے تابوت امریکہ پہنچنے لگے تو امریکی عوام بلبلا اٹھے۔ شکست خوردہ کھسیانی بلی نے اپنے خونیں پنجوں سے اپنے حلیف ملک پاکستان کو نوچنا شروع کر دیا۔ ایک طرف اسے امریکی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا درجہ دیا۔ اس کے فوجی حکمران پرویز مشرف کی پیٹھ تھپکی، مونگ پھلی جتنی امداد سے نوازا اور اس کی کرسی کو مضبوط کیا اور اس کے ساتھ ہی فاٹا کے پاکستانی علاقے میں فوجی کارروائی کا تقاضا کیا لیکن افغانستان کے مجاہدوں کی ہر کارروائی اور امریکی اور نیٹو کی اموات کے بعد\\\"Do More\\\" کا مطالبہ کیا جاتا، تاآنکہ 2004ءمیں امریکہ کے ڈرون طیارے جو مبینہ طور پر پاکستانی ہوائی اڈوں سے اڑتے تھے وزیرستان کے قبائلی علاقے پر میزائل حملے کرنے لگے۔ بظاہر ان کا ہدف وہ دہشت گرد تھے جو مبینہ طور پر پاکستان افغانستان کی سرحد عبور کرکے امریکہ اور نیٹو کی افواج کا ناطقہ بند کر رہے تھے۔ لیکن اس وحشت ناک میزائل باری میں سول آبادی کے زیادہ لوگ لقمہ¿ اجل بنے۔
اور پھر قبائلی انتقام کی آگ بھڑک اٹھی جو ایک طرف امریکہ کے خلاف تھی تو دوسری طرف اس کا ہدف پاکستان تھا جو امریکہ کا حلیف تھا۔ اس کے ساتھ ہی خود کش حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو عراق کی جنگ میں آخری حربے کے طور پر آزمایا جا رہا تھا۔ ان خود کش حملوں کا نشانہ پاکستان کے بیشتر بڑے شہر پشاور، اسلام آباد، لاہور اور کراچی بنے اور حد یہ ہے کہ حساس عمارتوں، حساس اداروں، ہوٹلوں اور عمارتوں کے علاوہ پرہجوم شاہراہوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ مساجد، امام بارگاہوں، مقدس درگاہوں، براتوں، جنازوں‘ دینی اور مذہبی جلوسوں کو بھی ہدف بنایا گیا۔ ملک کی معیشت اور معاشرت تباہ کر دی گئی۔ ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن انکل سام نے جس کا صدر اب ایک سیاہ فام امریکی نژاد بارک اوباما تھا، اپنے حلیف ملک کے اس نقصان اور داخلی انتشار کو درخورِاعتنا نہ سمجھا اور”ڈو مور“ کا تقاضا کیا تو ڈرون حملوں کا سلسلہ خود جاری رکھا۔حال ہی میں ایک رپورٹ میں پاکستان میں سی آئی اے کی ”ٹارگٹ کلنگ“ (Target Killing) اعداد و شمار شائع کئے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 2004 سے 2007ءیعنی امریکی صدر بش کے دوسرے صدارتی دور کے آخر تک 9 ڈرون حملے ہوئے۔
2008ءمیں امریکہ میں بارک حسین اوباما صدر منتخب ہو گئے اور پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی برسراقتدار آ گئی تو صدارت کی کرسی پر آصف علی زرداری فائز کئے گئے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت اور صدر زرداری کے دور میں ڈرون حملوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا۔ چنانچہ 2008ءمیں34 اور2009 میں 53 ڈرون حملے کئے گئے۔2010ءکا سال سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوا۔ اس برس 132 ڈرون حملوں میں 938 افراد کو لقمہ¿ اجل بنایا گیا جبکہ2004 سے 2007ءتک اموات کی تعداد 1114 رپورٹ کی گئی ہے۔ سب سے خوفناک، اندوہناک اور وحشیانہ ڈرون حملہ 17 مارچ2011ءکو شمالی وزیرستان میں دتہ خیل کے مقام پر ایک پرامن جرگے پر کیا گیا جس میں چالیس سے زیادہ معصوم شہریوں کو نشانہ اجل بنایا گیا اور یہ انعام تھا اس اقدام کا جو ایک دن قبل سی آئی اے کے جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو پاکستانی عوام کی مرضی کےخلاف رہا کرکے دیا گیا تھا۔ اس ڈرون حملے پر پہلی دفعہ پر زور احتجاج آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے کیا اور پھر وزیراعظم گیلانی صدر زرداری نے بھی آرمی چیف کے ساتھ اپنی آواز ملائی اور برسلز میں سہ فریقی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا۔
صدر بارک اوباما ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی نمائندہ قرار دے کر اس کی رہائی میں تو بے حد سرگرم تھے لیکن چالیس پاکستانیوں کی جابرانہ اموات پر پاکستان کے سامنے معذرت نہیں کی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ریمنڈ ڈیوس کو پچاس دن زیر حراست رکھنے پر پاکستان کو سزا دی ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی نظر انداز نہ کی جائے۔ حکومت نے ”بے غیرتی“ کے اس اقدام پر مٹی ڈالنے کےلئے قوم کو کرکٹ کے بے پناہ اشتیاق میں مبتلا کر دیا اور موہالی میں کرکٹ ٹیموں کا میچ”انڈو پاک جنگ“ سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کے وزیر داخلہ اور وزیر دفاع شعوری بے بسی سے کہہ رہے ہیں کہ ڈرون طیاروں کو نشانہ بنانے کےلئے پاکستان کے پاس ٹیکنالوجی موجود نہیں، جبکہ پاکستان ایرفورس کے ایک سرکردہ افسر کا یہ بیان چھپ چکا ہے کہ ڈرون طیارے گرانے کی صلاحیت سے پاکستان آراستہ ہے لیکن اس قسم کے حملے کا حکم سول حکومت نے دینا ہے۔ دوسری طرف 7جون2002ءکو بھارت کے ایک درانداز طیارے کو جو پائلٹ کے بغیر تھا پاکستانی جانبازوں نے ایک لمحے میں مارگرایا تھا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر بھارت کے ڈرون طیارے کو گرایا جا سکتا ہے تو امریکی طیارے ہماری آزاد فضاﺅں میں کیوں دندنا رہے ہیں اور ہمارے شہریوں کو کیوں قتل کر رہے ہیں۔ دتہ خیل میں جرگے پر حملےسے صدر زرداری، وزیر اعظم گیلانی اور آرمی چیف کی رگ حمیت جاگ اٹھی لیکن چند روز قبل جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملے میں 8 افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس کا جواب نہیں دیا گیا جس سے وہ ہماری قیادت کا وہ چذبہ ماند پڑ گیا جس کے تحت ڈرون کی جارحیت کا جواب دینا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے اور غیرت کا تقاضا بھی ہے کہ امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر نہ صرف نظرثانی کی جائے بلکہ سب سے پہلے ڈرون طیاروں کی پرواز کو رکوانا چاہئے۔ یہ مطالبہ تسلیم نہ ہو تو امریکہ سے اپنی فضا واگزار کرانے کے علاوہ پی اے ایف کو فوری جوابی کارروائی کی اجازت دینی چاہئے اور چمن اور طورخم کی سپلائی لائن بند کر دینی چاہئے۔