تحفظات مےں سر فہرست ان سی۔آئی۔اے آپرےٹوز کی پاک سرزمےن مےں بدستور موجودگی ہے جس کا ملک سے انخلارےمنڈ ڈےوس کی رہائی کے منصوبہ کی اےک مشق تھی کہ ےہ لوگ پاکستان سے فوراً نکال لئے جائےنگے۔ انکی تعداد اور مشن سے حکومت کو آگاہ کےا جائےگا کہ کتنے لوگ کس مقصدسے پاکستان مےں موجود ہےں۔
پاکستانی عہدے داروں نے کہہ دےا کہ اس معاملہ مےں تاخےر سے پاکستان امرےکہ کی دہشت گردی مےں تعاون پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاک امرےکہ تعلقات کے بارے مےں پاکستان کے تحفظات کی فہرست جنرل مےٹٹس کے حوالے کر دی گئی ۔ امرےکی ملٹری کمانڈر سے کہا گےا کہ امرےکہ حکومت مےں کچھ لوگ اےسے ہےں جو مستقل پاکستان کے خلاف منفی پروپےگنڈے مےں مصروف رہتے ہےں اور اس جنگ مےں پاکستان کے عزم اور صلاحےتوں کے بارے مےں گمراہ کن باتےں کرتے ہےں۔ اس ضمن مےں وائٹ ہاﺅس کی تازہ ترےن رپورٹ کا بھی ذکر کےا گےا۔ پاک عہدے داروں نے جنگ کے اخراجات کے ضمن جو رقوم واشنگٹن کے ذمہ واجب الادا ہےں ان کی فوری ادائےگی کا تقاضہ بھی کےا ۔ اس کے ساتھ ہی کہا گےا کہ جو اسلحہ پاک فوج کو فراہم کےا جانا تھا اس کی فراہمی بھی تاخےر کا شکار ہے۔ اےک اور متنازعہ معاملہ جس پر گفتگو ہوئی شمالی وزیرستان پر ڈرون حملوں کا تھا جس سے بہت سی شہری آبادی لقمہ اجل بن جاتی ہے۔
جنرل مےٹٹس کو بتاےا گےا کہ ان حملوں کا نقصان فائدہ سے کہےں زےادہ ہوتا ہے۔ اسی دوران دفتر خارجہ کی ترجمان تہمےنہ جنجوعہ نے اپنی ہفتہ وار برےفنگ مےں وائٹ ہاﺅس کی طرف سے پاکستان کی جنگ مےں صلاحےتوں اور کارکردگی پر تازہ ترےن تنقےد کو ےکسر مسترد کر دےا اور کہا کہ پاکستان کو افغانستان مےں امرےکہ اور اےساف فوجوں کی ناکامی کا ذمہ دار نہےں ٹھہراےا جا سکتا ۔اس ضمن مےں جو کچھ بھی کہا گےا ہے وہ ناقابل قبول ہے۔
دونوں ملکوں کی خفےہ اےجنسےوں (C.I.A. اور I.S.I )کے درمےان تعلقات کو سنبھالا دےنے کے لئے آئی۔اےس۔آئی کے سربراہ جنرل پاشا سی آئی اے کے ڈائریکٹر (Leon Panetta) لےون پنےٹا سے ملاقات کےلئے مختصر مدت کےلئے امرےکہ گئے اور سی آئی اے ہےڈ کوارٹرز مےں دونوں کے درمےان ملاقات ہوئی جسے عہدے داروں نے \\\"اچھی ملاقات\\\" بتاےا۔ ہر چند کہ دونوں اےجنسےز کے درمےان اختلافات طے نہ ہو ئے۔ سی آئی اے کے ترجمان نے بےان کےا کہ ڈائریکٹر پنےٹا اور جنرل پاشا کے درمےان ملاقات بار آور ثابت ہوئی دونوں اداروں کے درمےان تعلقات مضبوط بنےادوں پر قائم ہےں۔
ان حالات مےں امرےکہ کو سوچ سمجھ کر اہم فےصلے جلد ہی کرنا ہوں گے۔پاکستان بےک وقت امرےکہ کا دوست، اتحادی اور دشمن نہےں ہو سکتاہے۔ پھر پاکستان کےساتھ سلوک بھی وہی ہونا چاہئےے جو دوستوں اوربا اعتماد اتحادےوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ اےسے اقدامات جن سے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کو گزند پہنچتا ہو ترک کرنا ہوں گے۔اپنی جاسوس اےجنسےز کے اہل کاروں کی تعداد اور کارروائےوں کی تفصےل (I.S.I) کے مشورے اور مرضی سے طے کرنا ہو گی۔انٹےلی جنس پاک فوج کے ساتھ شئےر کرنا ہو ں گی۔ےہ جنگ ہم نے شروع نہےں کی تھی نہ ہم خوش دلی سے اس کا حصہ بنے تھے۔لےکن اب حالات کا جبر ہے کہ جنگ جاری رکھنے ےا اسے ختم کرنے ہردو صورتوں مےںامرےکہ پاکستان کے بغےر گزارا نہےں کر سکتا۔ ےہ بات امرےکہ جس قدر جلد سمجھ لے اس کے اپنے فائدے مےں ہے۔
سب سے ضروری بات ےہ ہے کہ پاکستان امرےکہ کا طفےلی نہےں اتحادی ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے بھی اتحادےوں والا سلوک کےا جائے۔