برسلز (نوائے وقت رپورٹ + اے ایف پی + ایجنسیاں) بلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں نیٹو کے 28 وزرائے خارجہ اور 28 وزرائے دفاع نے افغانستان سے نیٹو کے فوجی انخلاء کے نظام الاوقات پر غور کرنے اور شکاگو میں نیٹو کی اگلی سربراہ کانفرنس کی تیاریوں کے لئے ملاقات کی۔ اجلاس میں نیٹو نے زور دیا کہ افغانستان سے 2014ء کے آخر تک افواج واپس بلانے کے منصوبے میں تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ اجلاس میں افغانستان میں طالبان کے حملوں پر بھی شدید تشویش کا اظہارکیا گیا اور آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کے لئے حکمت عملی طے کی گئی، جرمن وزیردفاع ڈے میزیئر نے اجلاس کی تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں وزیراعظم گیلارڈ کے بیان پر تعجب ہوا۔ گیلارڈ کے بیان سے ہمارے 2014ءکے آخر تک افغانستان سے فوجی انخلاء کے منصوبے پرکوئی اثر نہیں پڑے گا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے آسٹریلوی وزیراعظم گیلارڈ کے بیان سے پیدا ہونے والی قیاس آرائیوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک کا اقدام ہمارے روڈ میپ کے عین مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایساف میں شامل تمام 50 ممالک نے اس بنیادی اصول پر اتفاق کیا کہ وہ ایک ساتھ ہی افغانستان سے باہر نکلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا بھی اس کا عہد کر چکا ہے۔ اجلاس سے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور وزیر دفاع لیون پنیٹا نے بھی خطاب کیا۔ ہلیری نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ نیٹو فورسز افغانستان میں امن کےلئے پرعزم ہیں۔ القاعدہ اور طالبان کو افغانستان میں قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ لیون پنیٹا نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کے حملوں میں کمی آ رہی ہے۔ نیٹو ممالک 2014ء تک افغان فورسز کو ذمہ داریاں منتقل کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔ افغانستان میں طالبان کمزور اور مقامی فورسز مضبوط ہو رہی ہیں۔ افغانستان میں خطرات سے آگاہ ہیں۔ افغان عوام کامیاب ہوں گے تو ہم کامیاب ہوں گے ہم افغانستان کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ہلیری کلنٹن نے کہا نیٹو فورسز افغانستان میں امن کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے پرعزم ہیں القاعدہ اور طالبان کو افغانستان کے اقتدار پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ القاعدہ طالبان افغانستان کو کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، دہشت گرد ہتھیار ڈال دیں تو ان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان کا کردار اہم ہے۔ افغانستان میں امن اور خوشحالی کیلئے پاکستان ایران اور دیگر ہمسایہ ممالک کا تعاون ضروری ہے۔ افغانستان میں اتحادی افواج طالبان پردباﺅ بڑھا رہی ہیں، افغانستان میں امن پوری دنیا کے مفاد میں ہے ہم پاکستان کی جمہوری حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکہ پرامن، مضبوط اور مستحکم افغانستان دیکھناچاہتا ہے۔ دہشتگردی کا خاتمہ دونوں ملکوں کی اولین ترجیح ہے۔ ہم شدت پسندوں کے پاکستانی سرزمین استعمال کرنے پر فکرمند ہیں۔ ہم نے افغانستان میں دہشت گردوں کیخلاف کارروائی سے گریز نہیں کیا۔ دہشت گردوں کے خلاف سرحد کے دونوں طرف کارروائی ہونی چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں ہلیری کلنٹن نے کہا کہ افغانستان میں اتحادی اور امریکی افواج نے حالیہ دنوں میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھرپور کارروائی کی جس میں درجنوں افراد ہلاک یا گرفتار کئے گئے ہم چاہتے ہیں کہ دہشت گرد افغانستان سے پاکستان کی سرزمین پر حملے نہ کریں، امریکہ افغان فورسز کی تربیت اور عوام کی مدد کیلئے پرعزم ہے۔