انتخابی جائزہ .... این اے 127 لاہور

این اے 127 اور ذیلی صوبائی حلقے پی پی 153، پی پی 154 لاہور کی پسماندہ اور سفید پوش آبادیوں پر مشتمل حلقہ ہے۔ اس حلقہ انتخاب میں پنجاب کا بڑا انڈسٹریل ایریا شامل ہے جس کے باعث یہاں مزدور طبقہ بہت بڑی تعداد میں آباد ہے۔ توانائی کے بحران نے جہاں ملک بھر کو متاثر کیا ہے وہاں پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہے۔ سو گیس اور بجلی کے بحران کے باعث اس حلقہ انتخاب میں واقع انڈسٹری لگ بھگ پچاس فیصد بند پڑی ہے۔ انڈسٹریوں کی بندش سے بیروزگاری میں اضافہ ہوچکا ہے۔ اس حلقہ انتخاب میں صاف پینے کا پانی عام طور پر میسر نہیں ہے۔ حلقہ انتخاب کی اس صورتحال کے باعث یہاں سے عام طور پر سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو انتخابی میدان میں اتارتی ہیں۔ این اے 127 سے مسلم لیگ (ن) نے اپنے ایک سینئر کارکن وحید عالم خان کو الیکشن میں اتارا ہے۔ وحید عالم خان یونین کونسل کے سابق ناظم اور پڑھے لکھے سنجیدہ اور بردباد شخص ہیں۔ مشرف آمریت میں مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے لیکن انکا شمار مسلم لیگ (ن) کے ”خاموش مجاہدوں“ میں ہوتا ہے جو ذاتی تشہیر سے بے نیاز ہو کر پارٹی کیلئے کام کرتے ہیں۔ ذیلی حلقوں پی پی 153 سے مسلم لیگ (ن) اپنے سابق رکن پنجاب اسمبلی رمضان صدیق بھٹی اور پی پی 154 سے سید زعیم حسین قادری کو لائی ہے۔ رمضان صدیق بھٹی کا شمار بھی مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں میں ہوتا ہے جبکہ سید زعیم حسین قادری مشرف آمریت میں نوازشریف کے ترجمان رہے اور شہبازشریف کابینہ میں انہیں ٹرانسپورٹ، ہائر ایجوکیشن کی وزارتوں کی ذمہ داری حاصل رہی۔ میٹرو بس کے منصوبے میں بھی انہوں نے سابق وزیراعلیٰ شہبازشریف کی معاونت کی۔
مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف بھی اپنے کارکنوں کو ہی سامنے لائی ہے۔ این اے 127 سے امیدوار نصر اللہ مغل نے اگرچہ پاکستان تحریک انصاف 2002ءکے الیکشن کے بعد جوائن اور 2002ء(ق) لیگ کی ٹکٹ پر ذیلی صوبائی حلقہ پی پی 154 سے لڑا تھا لیکن تحریک انصاف لاہور کے صدر عبدالعلیم خان کے ہمراہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف جوائن کی اور انکے ساتھ ملکر پاکستان تحریک انصاف کیلئے دن رات کام کررہے ہیں۔ تحریک انصاف نے اس حلقہ انتخاب سے پہلے عبدالعلیم خان کو الیکشن لڑنے کی ذمہ داری سونپی تھی تاہم بعدازاں انکی جگہ نصر اللہ مغل کو لایا گیا ہے۔ پی پی 153 سے پاکستان تحریک انصاف اپنی لاہور تنظیم کے سابق صدر شبیر سیال کو سامنے لائی ہے۔ شبیر سیال نہ صرف تحریک انصاف کے بانی رکن ہیں بلکہ تحریک انصاف کے فعال ترین کارکنوں میں انکا شمار ہوتا ہے۔ اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا شبیر سیال کا پہلا تجربہ ہے تاہم ان میں ایسی صلاحیتیں موجود ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے قومی اسمبلی کے امیدوار کی انتخابی مہم کو بھی جاندار بنا سکیں گے۔ پی پی 154 سے تحریک انصاف کے امیدوار آصف رضا بیگ نوجوان سیاسی کارکن ہیں۔ انہوں نے چار پانچ سال پہلے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔
پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ کے این اے 127 سے مشترکہ امیدوار خرم لطیف کھوسہ ہیں جو پیپلز لائرز فورم کے روح رواں ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل و سابق گورنر پنجاب سردار لطیف خان کھوسہ کے صاحبزادے ہیں۔ خرم لطیف کھوسہ فعال نوجوان ہیں اور انہیں اچھا امیدوار قرار دیا جاسکتا ہے۔ انکے ساتھ ذیلی صوبائی حلقوں میں پی پی 153 سے پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن اور زونل صدر میاں طارق ہیں۔ اس حلقہ انتخاب سے پیپلز پارٹی کے الیکشن 2002ءمیں ٹکٹ ہولڈر ملک احسان گنجیال اور الیکشن 2008ءمیں ٹکٹ ہولڈر ذوالفقار بدر کے درمیان پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے زبردست میچ پڑا۔ ملک احسان گنجیال پیپلز پارٹی پنجاب کے سابق صدر راﺅ سکندر اقبال کے زمانے میں پیپلز پارٹی کسان ونگ پنجاب کے صدر رہے اور پھر آصف علی زرداری کی لاہور تاریخوں پر پیشی کے دوران انکے آگے پیچھے پھرنے کی وجہ سے صدر زرداری کے قریب سمجھے جاتے رہے ہیں جبکہ ذوالفقار بدر پیپلز پارٹی کے سکہ بند جیالے اور مرکزی رہنماءجہانگیر بدر کے صاحبزادے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے دھڑے بندی سے بچنے کیلئے پی پی 153 کا ٹکٹ احسان گنجیال یا ذوالفقار بدر کو دینے کی بجائے میاں طارق کو دیدیا ہے تاہم ملک احسان گنجیال نے فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے پیپلز پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ پی پی 154 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل میر معروف جیالے نہیں بلکہ انکا تعلق ایک معروف صحافی خاندان سے ہے۔ فیصل میر پڑھے لکھے اور سنجیدہ شخص ہیں اور انہیں اچھا امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔
جماعت اسلامی نے این اے 127 سے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا البتہ پی پی 154 میں سابق رکن پنجاب اسمبلی سید احسان اللہ وقاص امیدوار ہیں۔ سید احسان اللہ وقاص کو پہلے این اے 127 سے بھی امیدوار بنایا گیا تھا تاہم جماعت اسلامی نے حکمت عملی تبدیل کرکے لاہور کی تمام نشستوں پر الیکشن لڑنے کی بجائے اپنی توجہ مخصوص چند حلقوں تک مرکوز رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں قومی اسمبلی کی امیدواری سے دستبردار کروالیا۔
مندرجہ بالا امیدواروں کے ابتدائی جائزے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے یہاں سے پڑھے لکھے درمیانی عمر کے افراد اور نوجوانوں کو میدان میں اتارا ہے۔ پچھلے عام انتخابات میں یہاں مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری رہا تھا تاہم اس مرتبہ اس حلقہ انتخاب میں کانٹے دار مقابلہ ہونے کی توقع ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...