”ریاستی استحکام اور جمہوریت کی گھنٹی“؟؟؟

 ہماری اعلیٰ قیادت بالآخر اس نتیجے پر پہنچ ہی گئی کہ آئین کی حکمرانی سے ہی جمہوری عمل کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے اسی قسم کے خیالات کا اظہار میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔ جس کے تحت جمہوری عمل کو مستحکم بنانے کے لئے اکھٹے چلنا ہوگا اور اس کے لئے آئین کی بلادستی اور اداروں کو مضبوط بنانا شرط اول ہے کسی مفکر نے کہاکہ تمام ریاستیں اگر بلیاں ہیں تو جمہوریت اُن کے گلے میں گھنٹی ہے لیکن ہمارے ہاں یہی بات وجہ تنازعہ رہی کہ یہ گھنٹی کون باندھ رہاہے؟ لالچ ہوس، ذاتی مفادات ہمیشہ آڑے آگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمیں ارد گرد خطرے کی گھنٹی مسلسل سنائی دے رہی ہے آج ہم اُس موڑ پرکھڑے ہیں کہ نجات دھند ہ کے منتظر ہیں جو قوم کو نئی سمت عطا کرے ریاستی استحکام صرف اُسی صورت میں ممکن ہے کہ ملکی ترقی کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرے ایک افسر پاگل خانے معائینہ کے لئے گیا اُس نے دیکھا کہ ایک معمر شخص بڑے انہماک سے کچھ پڑھنے میں مصروف ہے افسر نے اُس کی توجہ اور المناک دیکھ کر اُسے اپنے پاس بلایا اور کہا ”کیاتم واقعی پاگل ہو“ وہ بولا نہیں جناب میں پاگل نہیں ہوں میں نے یہاں پاگل خانے میں اپنی زندگی کا زیادہ تروقت کتاب لکھنے میں گزاردیا ”کونسی کتاب“ افسر حیران ہوا پاگل شخص کچھ دیر کے بعد ہاتھ سے لکھی ہوئی کتاب اٹھا لایا افسر نے کتاب کھولی اُس کے پہلے صفحے پر لکھا تھا ”گھوڑا کیسے دوڑتا ہے“ باقی دوسو صفحات پر لکھا تھا ”ٹھکا ٹھک ٹھکا ٹھک“ ہم نے بھی اس مملکت خداداد کی سیاسی تاریخ میں جو کچھ رقم کر چھوڑا ہے وہ اس سے مختلف نہیں لیکن ہمارے ہاں شاید ترقی کا معیار مختلف ہے ہمارے حکمرانوں کے پاس ہمہ وقت اصطبل میں اعلیٰ نسل کے گھوڑے موجو د رہے ہیں اور جن کے یہ مشاغل نہیں تھے اُن کے پاس ہارس پاور گاڑیاں ہمیشہ موجود رہی ہیں اب رہا گڈگارننس کا مسئلہ تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ اُس منزل کو جسے ”Goal“ بھی کہا جاتا ہے حاصل کیا جائے جس کا خواب ہمارے قائدین نے لکھا لیکن جہاں ”گول“ کی جگہ سب گول مال ہے کا اصول لاگو ہو جائے وہاں سیاسی تاریخ میں وہی کچھ رقم ہوتا ہے جو پاگل خانے میں پاگل نے لفظی طور پر اپنی کتاب میں رقم کر چھوڑا !
ایک شخص درخت کی اُسی شاخ کو کاٹ رہا تھا جس پر وہ بیٹھا تھا ایک دانا شخص کا وہاں سے گزر ہوا اُس نے کہا اوئے بیوقوف نیچے گر پڑے گا لیکن اُس نے ایک نہ سنی آخر کار وہ نیچے آگرا اُسے احساس ہو اکہ وہ واقعی بیوقوف ہے اُس نے بھاگم دوڈ میں داناآدمی کو جالیا اور پوچھا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں بیوقوف ہوں دانا آدمی مسکرایا اور بولا تمہاری پیشانی پر لکھا ہوا ہے کہ تم بیوقوف ہو شاید ہماری پیشانیوں پر بھی کچھ عبارت ہے لیکن ہم پڑھنا ہی نہیں چاہتے ہیں ایک غریب ڈرائیور نے تو ایک انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا کہ اس ملک کی مثال اُس بس کی طرح ہے جس کی گریاں اور سیٹیں اکھڑ چکی ہیں اور اس کے پیچھے جلی حروف میں لکھا ہے ”ناچ میری بلبل کہ پیسہ ملے گا“ اب چائے اس کا انجر پینجر ہل رہاہو اُسے دوڑنا پڑتا ہے لیکن اُسے یقین ہے کہ کبھی تو حالات بدلیں گے وہ کہتا ہے کہ تب وہ اس بس کے پیچھے لکھوائے گا ہارن دے کر پاس کریں یا برداشت کریں سیانے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت اور محبوب کے وعدوں پر اعتبار سراسر خسارے کا سودا ہے جس نے اعتبار کیا وہ کہیں کا نہ رہا۔
اب تو غریب بھی کہیں کا نہ رہا۔ اوپر سے حکومتی بیانات غریب کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں کچھ عرصہ قبل بیان آیا کہ غریب گوشت کی بجائے سبزیاں اور دالیں استعمال کریں اب سبزیاں اور دالیں مہنگی ہوگئیں تو غریب کیا کرے۔
ایک صحافی نے لکھا کہ حکومت چلانا اور ریڑھاچلانا مشترک ہے ریڑھا چلانے والے کے سامنے بے زبان جانور ہوتا ہے اور ریڑھا چلانے والا چھانٹے کی مدد سے سمت اور مقام کا تعین کرتا ہے وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی بارہا اسی بات کا اظہار کیا تھا کہ آمرانہ دور میں لوگ ”سوٹی“ کے اشاروں پر ناچتے تھے یوں نجانے کیوں سوٹی اور آمریت لازم و ملزم سی ہو جاتی ہے ایک استاد نے سوٹی فضا میں لہراتے ہوئے پوچھا ” جمہوریت کہاں ہے“ شاگرد نے نفی میں سرہلا دیا، استاد نے سوٹی کوشاگرد کی پیٹھ پر برسایا اور کہا مرغا بن جاﺅ شاگرد جلدی سے مرغا بن گیا تاہم ایک سبق اُس نے ضرور سیکھ لیا کہ اگر جمہوریت کا مفہوم معلوم نہ ہوتو یہ مرغا بنادیتی ہے اور جب تک ہم سب بھی یہ مفہوم ازبر نہیں کرلیتے تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو اس معاشرے میں ہورہا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن