ادبی خبریں
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر کے زیراہتمام عہد ساز شاعر منیر نیازی کی 86ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس موقع پر تنویر ظہور کی کتاب ”منیر نیازی کی باتیں یادیں“ کی تعارفی تقریب بھی منعقد ہوئی۔ صدارت ڈاکٹر اجمل نیازی نے کی۔مہمان خصوصی بیگم ناہید منیر نیازی، اسلم کمال، منصورآفاق اور ڈاکٹر اختر شمار تھے۔ منیر نیازی اور تنویر ظہور کی کتاب کے حوالے سے سعداللہ شاہ، ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ، رانا احتشام ربانی اور ڈاکٹر صغرا صدف نے اظہار خیال کیا۔ اقبال راہی، سلمان سعید، حکیم سلیم اخترملک، اور فراست بخاری نے منیر نیازی کو منظوم خراج پیش کیا۔ تقریب کے صدر ڈاکٹر اجمل نیازی نے کہا کہ بلاشبہ منیر نیازی اپنے عہد کا سب سے بڑا شاعر تھا۔ وہ سچے عاشق رسول تھے۔ ایسی تخلیقی شخصیت میں نے زندگی میں نہیں دیکھی۔ وہ کسی اور زندگی کا آدمی تھا۔ یہ تنویر ظہور کا منفرد کارنامہ ہے۔ منیر نیازی کی تخلیقی معرکہ آرائی کو جس طرح اس نے لکھا ہے، یہ بہت پسندیدہ اور دلچسپ ہے میرا یقین ہے کہ یہ کتاب منیر نیازی کے حوالے سے ایک مقبول بلکہ محبوب کتاب کے طور پر سامنے آئے گی۔ بیگم ناہید منیر نیازی نے کہا کہ منیر نیازی صاحب کی باتوں، یادوں اور نادرتصاویر کو اکٹھا اور پھر ان کو شائع کرنا تنویر ظہور کا بہت بڑا کام ہے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی کی منیر نیازی سے وابستگی اور محبت مجھے حوصلہ دیتی ہے۔ میں وزیراعلی پنجاب میاں شہبازشریف سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ لاہور کی کوئی سڑک یا پل منیر نیازی کے نام سے منسوب کر دیں۔
کتاب کے مصنف تنویر نے کہا کہ میں نے منیر نیازی کی یادداشتیں ریکارڈ کیں جو ایک اخبار میں پانچ قسطوں میں شائع ہوئیں۔ اخبار کی زندگی ایک دن کی ہوتی ہے۔ میری خواہش تھی کہ یہ محفوظ ہو جائیں چونکہ اس میں بعض ایسی باتیں منیر نیازی نے کی تھیں جو کسی انٹرویو میں سامنے نہیں آئیں۔ منیر نیازی کی نایاب اور نادر تصاویر بھی میرے پاس محفوظ تھیں۔ دوست پبلی کیشنز کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے یہ کتاب دیدہ زیب انداز میں شائع کی۔
ڈاکٹر خالد جاوید جان نے اپنے خطاب میں کہا کہ منیر نیازی دھڑے والا اور دلیر شخص تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری اور نثر میں اپنے نظریات کا کھل کر اظہار کیا۔رانا احتشام ربانی نے کہا منیر نیازی انسانیت کے رہنما تھے۔ تنویر ظہور نے ان پر کتاب لکھ کر بہت اچھی کاوش کی ہے۔ ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے کہا کہ منیر نیازی پر تنویر ظہور کی کتاب بھرپور اور بہت عمدہ ہے۔ منیر نیازی شاعری میں اپنی ڈکشن کے حوالے سے منفرد شخصیت تھے۔ انہوں نے قلندرانہ شعور میں شاعر کی۔ نئی علامتوں کا استعمال کیا۔
ڈاکٹر اختر شمار نے کہا کہ اپریل میں پھول کھلتے ہیں تو مجھے بے طرح منیر نیازی یاد آ جاتا ہے۔ وہ اس شہر میں زندہ تھا تو لگتا تھا کہ شہر میں شاعر کی خوشبو آباد ہے۔ تنویر ظہور نے ان کی باتیں اور یادیں ایک پوٹلی میں بند کر رکھی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد اس نے پوٹلی کھول دی ہے۔ ان کے انٹرویوز میں چھپے ان چھپے فقرے تنویر نے یکجا کر دیئے ہیں۔
سعداللہ شاہ نے کہا کہ تنویر ظہور نے منیر نیازی پر اہم کام کیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ اسلم کمال نے کہا منیر نیازی سے میرا تعلق مصور اور شاعر کا تھا۔ میں نے ان کا پورٹریٹ بنایا تو انہوں نے پسند کیا۔
منیرنیازی کے اس دنیا سے کوچ کو اسی دنیا میں اس کی آمد نو کا اعلان بنا دیتا ہے جب اس کے جسد خاکی کو قبر کنارے لے جایا گیا تو کلیات منیر کھل گئی جس کے اوراق پر سے اشعار کے عکس بلند ہو کر رنگ و نور کے جھلمل کرتے ذرات کی طرح منیر کی میت کے ساتھ ساتھ لحد میں اترتے چلے گئے۔ ان کے شعر ہیں....
میں جو اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اسم محمد شاد رکھتا ہے مجھے
بیٹھ جائیں سایہ درمان احمد میں منیر
اور پھر سوچیں وہ باتیں جن کو ہونا ہے ابھی
حکیم سلیم اختر نے منظور خراج پیش کیا۔ ایک شعر ملاحظہ کریں۔....
غم زدوں میں اک سلیم اختر بھی ہے
جس کی خوشیاں کھا گئی یاد منیر
اقبال راہی نے منیر نیازی کی نذر جو شعر کہے ان میں ایک شعر یہ تھا....
کتابیں اس کی ہیں سرمایہ ادب راہی
کرے گا سرخرو محشر میں اس کو رب راہی
فراست بخاری کا یہ شعر ملاحظہ کریں۔ ....
فراست بھلا نہ پائے گی دنیا کبھی انہیں
ناہید کی جاگیر تھے منیر نیازی
منیر نیازی کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا اور ڈاکٹر صغرا صدف نے تمام احباب کا شکریہ ادا کیا۔ نظامت خاقان حیدر غازی نے کی۔