چیئرمین نیب کی تقرری کیخلاف عمران خان کی درخواست خارج‘ صدر ربڑ سٹمپ نہیں‘ زرداری وزیراعظم سے بھی زیادہ بااختیار تھے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کی تقرری کیخلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست خارج کر دی ہے۔ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعہ کے روز مقدمہ  کی سماعت کی تو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے وکیل اعتزاز احسن اور حکومتی وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے۔ خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہاکہ نیب ایکٹ کے تحت قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف میں مشاورت ضروری ہے جو اس کیس میں ہوئی ہے اس لئے تقرری نیب ایکٹ کے عین مطابق ہے۔ عدالت نے استفسار کیاکہ اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے، کیا وہ ایوان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت سے ہوتا ہے یا اپوزیشن لیڈر وہ ہوتا ہے جسے اپوزیشن کے سب سے زیادہ ارکان کی حمایت حاصل ہو تو خواجہ حارث نے کہاکہ قومی اسمبلی رولز کے تحت سپیکر ایسے رکن کا تقرر بطور قائد حزب اختلاف کرتا ہے جسے اپوزیشن کے سب سے زیادہ ارکان کی حمایت حاصل ہو۔ اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میںکہاکہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں ہے کیونکہ یہ عمران خان نے تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے نہیں بلکہ انفرادی حیثیت میں دائر کی ہے اور انفرادی حیثیت میں چیئرمین کی تقرری سے ان کا کوئی حق متاثر نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ قائد حزب اختلاف اور وزیراعظم میں مشاورت ہوئی تھی اور قائد حزب اختلاف نے قمرالزمان کی بطور چیئرمین تقرری کی حمایت کی تھی۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہاکہ صدر ربڑ سٹمپ نہیں ہوتا آصف زرداری کی بات دوسری تھی وہ تو وزیراعظم سے بھی زیادہ بااختیار تھے جس پر اعتزاز احسن نے کہاکہ 18ویں ترمیم کے بعد اب ایسا نہیں رہا اور اب صدر وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند ہے۔ جسٹس ناصر الملک نے استفسار کیا کہ کیا قائد ایوان اور وزیراعظم کا آفس ایک ہی ہوتا ہے تو اعتزاز احسن نے کہاکہ جب وزیر اعظم مشاورت کے عمل میں شریک ہوں تو یہ شرکت بطور قائد ایوان ہوتی ہے مگر جب اس مشاورتی عمل کی ایڈوائش صدر کو بھجی جائے تو یہ وزیراعظم بھجواتا ہے اس کے علاوہ قانون سازی کے عمل میں وزیراعظم صرف قائد ایوان کا کردار ادا کرتا ہے۔ اعتزاز احسن نے کہاگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عمران خان کی درخواست تحریک انصاف کے سربراہ کی حیثیت میں ہے تو بھی ان کی دلیل میں وزن نہیں ہے، نیب آرڈننس کے تحت مشاورت قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر میں ہونا ضروری ہے تمام اپوزیشن سے نہیں اور عمران خان اپوزیشن لیڈر نہیں ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ مشاورت تمام اپوزیشن سے ہو تو اس کا فورم عدالت نہیں بلکہ پارلیمنٹ ہے وہ وہاں قانون میں ترمیم کرائیں۔ عمران خان کے وکیل حامد خان نے جوابی دلائل میں کہاکہ قمرالزمان کی تقرری سرے سے ہی غلط ہوئی ہے یہ کیسی بات ہے کہ وزیر اعظم نے مشاورت کی، ایڈوائس دی اور انھوں نے ہی منظوری بھی دے دی جبکہ مشاورت اور ایڈوائس دو الگ الگ چیزیں ہیں، حکومتی اور اپوزیشن لیڈر کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فاضل عدالت نے چیئرمین کی تقرری کیخلاف عمران خان کی درخواست خارج کر دی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...